داد بیداد …….چینی سر مایہ کاری کے خلاف ؟

…………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ ……….
کون ہے جو پاکستان میں چینی سر مایہ کاری کے خلاف ہے ؟وہ کونسی طاقتیں ہیں جو پاکستان میں چینی سر مایہ کاری کا راستہ روکنا چاہتی ہیں ؟ان دو سوالات نے میڈیا کے اندر تہلکہ مچادیا ہے سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے آئے روز کوئی نہ کوئی سامنے آتا ہے چینی انجینئروں کے اغوا کی کوشش کرتا ہے چینی سرمایہ کاروں کے خلاف خود کش حملوں کی دھمکی دیتا ہے یا چینی سرمایے سے شروع ہونے والے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں رکاؤٹ ڈالتا ہے بے شک ایسے حلقوں کو عوامی پذیرائی نہیں ملتی عوام کے اندر اُن کے نعروں کو مقبولیت کا درجہ نہیں ملتا مگر پھر بھی ایسے عناصر میڈیا پر کسی نہ کسی بہانے سے آجاتے ہیں اور اپنی حاضری لگالیتے ہیں دوچار بینرز لگا کر تصاویر اتارتے ہیں اور بات کو آگے بڑھاتے ہیں گذشتہ روز کے اخبارات میں چھ تنظیموں کے نمائیندوں کی طرف سے مشترکہ پریس کانفرنس کی خبریں آگئیں تو میرا خیال این جی اوز کو فنڈ دینے والے بین لاقوامی عطیہ کنندگان کے طریقہ واردات کی طرف متوجہ ہوا مجھے ایل ایف اے اور آربی ایم کے دو فارمیٹ یاد آگئے دونوں فارمیٹ امداد لینے والی تنظیم کے کام کا جا ئز ہ لینے کے لئے سرگر میاں مقرر کرتی ہیں مثلاً مقصد یہ ہے کہ چین کی سرمایہ کاری کو بند کر دایا جائے اس مقصد کے لئے 4 سرگرمیاں تجویز کی جائینگی 3 ماہ بعد ، 6 ماہ بعد اور سا ل بعد جائز ہ لیکر تنظیم کو مزید فنڈ دینے کی سفارش کی جائیگی سرگرمیاں ایسی ہوتی ہیں جس میں بینر ہو ، اخبار کی رپورٹ کا تراشہ ہو ، میٹنگ کی تصویر ہو ، پریس کا نفرنس کی تصویر ہو اس طرح کی چا ر چھوٹی بڑی سرگرمیاں فنڈنگ کو جواز فراہم کرتی ہیں مزید فنڈنگ کا راستہ ہموار ہوجاتاہے سرد جنگ کے زمانے میں سویت یونین کے خلاف کا م کرنے والے پر یشرگروپوں کی ایسی فنڈنگ ہوتی تھی آج بھی سرمایہ دار ممالک کا گروپ ترقی پذیر ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کی جگہ پریشر گروپوں کو سپورٹ کرتاہے اور پریشر گروپوں کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتاہے 1978 ؁ء سے 1990 ؁ء تک مغربی سر مایہ داری نظام کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے سارے پریشر گروپ عوام کے سامنے آگئے خان عبدالغفار خان بقید حیات تھے انہوں نے افغان خانہ جنگی کو ڈالر کی لڑائی قرار دیا سویت یونین ٹوٹنے کے بعد مزاحمتی گروپوں کی آپس میں لڑائی شروع ہوئی تو ثابت ہوا کہ یہ اصولوں کی جنگ نہیں تھی اگر ایسا ہوتا تو مشرقی تیمور کی طرح افغانستان میں امن قائم ہوجاتا مگر امن کی راہ میں ڈالر رکاؤٹ بن کر حائل ہوا سویت یونین کے مقابلے میں عوامی جمہوریہ چین کی پالیسی بہت مختلف ہے عوامی جمہوریہ چین کو چےئر مین ماوزے تنگ نے جو وژن دیا وہ فارسی کے مشہور شاعر عُرفی کا وژن ہے عرفی کہتا ہے
عرفی تو میند یشں زغوغائے رقیباں
کہ آوازِ سگاں کم نکند رزق گدا را
شاعر کہتا ہے کہ رقیبوں کے شور و غل پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں کتوں کے بھونکنے سے فقیروں کی روزی کم نہیں ہوتی عوامی جمہوریہ چین کے لیڈر نہ بیاں دیتے ہیں نہ جواب دیتے ہیں نہ پریس ریلیز لے آتے ہیں نہ بریفنگ دیتے ہیں وہ چُپ چاپ اپنا کا م کرتے ہیں دشمن کے کارندے چینی کارکنوں پر حملہ کر کے جانی نقصان پہنچائیں تب بھی چین خاموش رہتا ہے چین کی کامیابی کا راز اسی طرح کی خاموشی میں ہے پاکستان کے لئے چینی سرمایہ کاری کی اہمیت کے بے شمار پہلو ہیں اس کا نمایان پہلو یہ ہے کہ 2008 ء اور 2013 کے درمیان پاکستانی معیشت کے 5 سال بہت کمزور گذر گئے ان 5 سالوں میں ڈالر کی شرح تبا دلہ 60 روپے سے بلند ہو کر 103 روپے تک پہنچ گئی یہ شرح 1999 سے 2008 ء تک 60 روپے کی سطح سے آگئے نہیں بڑھی تھی پاکستان کو ایک بار پھر آئی ایم ایف سے بھاری سود پر قرض لینا پڑا 2002 ء میں پاکستان نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا تھا ایسے حالات میں چین کی طرف سے ایشیا ء میں سرمایہ کاری اور تجارت کے لئے آئی ا یم ایف کے مقابلے میں اپنے بینک کا قیام اور پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہد ہ مغربی طاقتوں کے لئے چیلنج تھا مغربی طاقتوں نے چیلنج کو قبول کیا اور چین کے خلاف پر یشر گروپ سامنے لانے کے لئے فنڈنگ کا طریقہ اختیار کیا اور یہ مغربی ممالک کا آز مودہ نسخہ ہے جو شخص گولی سے نہیں مرتا دشمن کے ہتھیار کی پروا نہیں کرتا وہ شخص ڈالر کی ہلکی سی مار بھی برداشت نہیں کرسکتا یہ ہماری بنیادی کمزوری ہے ا س کمزوری کی وجہ سے ہم پر دہشت گر دی کا لیبل لگ گیا ہے ہماری قومیت اور ہمارے مقدس مذہب پر لیبل لگ گیا ہے ہم پراکسی لڑائیوں کے مزدور بن کر رہ گئے ہیں سعودی عرب اور ایران کی جنگ میں بھی ہم کولڑ ا یا جارہا ہے چین اور امریکہ کی جنگ میں بھی ہماری کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جارہی ہے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کی مخالفت اس سلسلے کی ایک نمایاں کڑی ہے ہمارے دشمن کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ افغانستان میں 1978  سے 2016 ء تک 38 سالوں کی خانہ جنگی نے مغربی ممالی کے ایجنڈے کو بے نقاب کر دیا ہے مذہب کے نام کا ستعمال اب کارگر ثابت نہیں ہوتا اس لئے قومیت کا نعر ہ از ما یا جارہا ہے پختون ، پنجابی کے نا م پر نفرت پھیلائی جارہی ہے گذشتہ تین سالوں میں دو مواقع ایسے آگئے جب ہماری سیاسی قیادت نے چینی سر مایہ کاری کے معاملے میں امریکی دباؤ کے آگئے ہتھیار ڈالنے کا عند یہ دیدیا تاہم پاکستان کی مسلح افواج نے سیاسی قیادت کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بحرانوں سے نکالا سیانے کہتے ہیں کہ پانا مہ لیکس کا شوشہ بھی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو روکنے کی گہری سازش تھی اب یہ سازش بھی نا کامی سے دوچار ہوگئی ہے مگر مغربی ممالک باز نہیں آئینگے اُن کی منفی سر گرمیاں جاری رہینگی مرزا غالب نے سچ کہا
با ز یچہ اطفال ہے دنیا میری آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔