یاد ماضی…….(بانگ سے بلتستان (آخری قسط

شیرولی خان اسیر

10/10/2013
ہم نے واپسی کا سفر سطح مرتفع دیوسائی کے اوپر سے کرنے کافیصلہ اس وقت کیا تھاجب ہمارے سفر کا آغاز مستوچ سے ہوا تھا۔ فیضیؔ اور صالحؔ ہر راہگیر سے معلومات لینے نہیں بھولے تھے کہ آیا دیوسائی والی سڑک کھلی ہے کہ نہیں، کہیں کوئی مشکل پیش تو نہیں آئے گی؟۔ سب نے ہماری خواہش کے مطابق خبر دی تھی کہ سڑک کھلی ہے، البتہ گلگت پہنچنے میں دو چارگھنٹے مزید صرف ہوں گے۔ہم نے بخوشی قبول کرلیا تھا اور اسی سبب سے صالحؔ صاحب نے اپنی صبح کی نیند قربان کرنے کا اٹل فیصلہ کیا تھا۔ میں اورفیضیؔ ویسے بھی ’اورارو پولیرو‘ واقع ہوے ہیں۔ فیضی صاحب زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے سوتے ہیں۔ میں پانج چھ گھنٹے، البتہ صبح سویرے جاگ جانا میری عادت کا جزو لاینفک ہے۔ ہم صبح ساڑھے چھہ بجے ہوٹل سے نکلے اور سدپارہ جھیل کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ہمارا رخ جنوب مشرق کی طرف تھا۔ سدپارہ ڈیم کا سرسری نظارہ کیا، فوٹو کھینچوائے اور آگے بڑھ گئے۔ وادی تنگ تھی۔ جوں جوں ہم بڑھتے گئے ہمیں چترال کی شکرگاہوں اور چراگاہوں کی ہوبہو تصویریں سامنے آتی رہیں۔ وہی صنوبر کے سدابہار چھوٹے چھوٹے پیڑ، وہی برچ کے خوبصورت پودے اور وہی جھاڑی بوٹیاں جو چترال کے بالائی حصوں کی زینت ہیں۔ سکردو سے ہم آہستہ آہستہ اونچائی کی طرف جانے لگے۔ ایک گھنٹے کا سفرطے کرنے کے بعد ہماری گاڑی دیوسائی کی شمالی ڈھلان کی موڑیں چڑھنے لگی ۔ کئی موڑیں کاٹنے کے بعد ہم دیوسائی کے شمالی سرے پر تھے جہاں پانی جم گیا تھا۔ آگے لق ددق بھورا میدان تھا۔ کہیں نشیبی جگہوں پر دلدلی زمینیں اور ان سے نکلتے ہوے موسم خزان کے عمررسیدہ ندی نالے ، مرجھائی ہوئی گھاس اور پھول،کہیں کہیں سر اٹھائے پست قامت چٹانیں اور ٹیلے ہر چیز دیکھنے کے قابل تھی۔ دیوسائی کا میدان اس موسم میں بھی قابل دید منظر پیش کررہا تھا، اگرچہ ہم جیسے خزان زدہ عمر کے لوگوں کے لیے اپنی ہی تصویر لگتی تھی۔دل میں آرزو کروٹیں لینے لگی کہ کاش جون جولائی میں دیوسائی دیکھنا نصیب ہو کہ اس کے سبز مخملیں گھاس اور صدہا رنگ و بو کے پھولوں سے اپنے ذوق جمالیات کی تشنگی بجھاسکیں۔ جنوب کی طرف ڈیڑھ دو گھنٹے سفر کے بعد ہمیں دو گول مٹول سفید براق اشکال نظر آئیں جو دور سے برف کے مجسمے لگ رہی تھیں۔ لیکن جلد ہی پتہ چلا کہ یہ استور پولیس کی چوکی ہے۔ہم نے بریک لگوائی اور پولیس حوالدار بھاگم بھاگ ہمارے پاس پہنچ کر سلام کیا اور بڑے ادب کے ساتھ سفر کا حال احوال پوچھا اور چائے کی پیشکش بھی کی۔ ہم استور پولیس کی خوش اخلاقی پر بہت خوش ہوئے، کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی مثال نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس چوکی سے سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر سیوسار جھیل نے ہمارا استقبال کیا اور دل کو خوش کردیا۔ بھورے رنگ کے بڑے سے پیالے میں صاف شفاف پانی، نہ منبع کا پتہ نہ نکاس معلوم، قدرت کا ایک اور شہکار۔ اپنی گرمائی دنیا سے واپس آنے والے بطخ پیراکی میں محو تھے۔ صالحؔ کے منہ میں پانی بھر آیا۔ان کے پاس بندوق ہوتی تو ہم ان کو نہیں روک سکتے تھے اوردو چار خوبصورت پرندے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔ صالح صاحب کا تعلق کوشٹ کے مشہور شکاری خاندان محمد بیگے سے ہے۔’در عمر پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار‘ کے مصداق ہم اور فیضیؔ صاحب عمر پیری میں پرہیزگار ہوگئے ہیں اور بے چارے پرندوں کے قتل عمداً کے سخت خلاف ہیں وہ بھی خوبصورت پرندوں کے۔ وہ الگ بات ہے کہ کوئی شکار کر لائے اور روسٹ کرکے ہمیں کھلائے تو ہم اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے میں ذرا بھر کوتاہی نہیں برتتے بلکہ شکاری کی مہارت پر بھی دو بول تعریف و توصیف کے کہہ ہی لیتے ہیں تاکہ دوسری مرتبہ بھی ہمیں یاد رکھے۔
سیوسارجھیل سے جنوب کی طرف ننگاپرپت کی چوٹی سفید چادر لپٹی سامنے ایستادہ تھی۔ ہم نے اس بوڑھی دلہن کے ساتھ بھی فوٹو بنائے اور آگے بڑھے۔ تھوڑی سی چڑھائی مزید چڑھنے کے بعد ہم استور وادی کے سرہانے پہنچ گئے، جہاں سڑک کے دائیں طرف چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ نام شیرگلی بتایا گیا۔بائیں طرف ایک ٹیلے پر مکانوں کی جھرمٹ تھی اور سامنے کا دلکش سنہری جنگل اپنا حسن بکھیر رہا تھا۔ یہاں سے ہم اترائی اترنے لگے۔ ایک دو موڑیں کاٹنے کے بعدہم فارسٹ چیک پوسٹ چلم میں اترے۔ یہاں پر پاک آرمی کا بیس کیمپ بھی تھا۔ ہماری پہلی ملاقات فارسٹ ملازم سجاد حسین سے ہوئی۔ انہوں نے بھی بڑی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا اور چائے کی پیشکش کی جسے صالحؔ صاحب نے بلا تکلف قبول کیا۔ سجاد حسین دو منٹ میں چائے کی ٹرے اٹھائے سڑک پر ہی لائی۔ چائے کا رنگ زبردست تھا۔ ٹرے پر چینی اور نمک دونوں موجود تھے۔ ہم نے بغیر پوچھے نمک ملادیا۔پہلے گھونٹ سے پتہ چلا کہ چینی پہلے سے موجود تھی۔ چائے کا رنگ دیکھ کر جو اشتیاق دل میں ابھراتھا وہ تو نامراد رہا، البتہ بطور او آر ایس میں نے پی ہی لیا۔ سجاد کا شکریہ ادا کیا اور تصویریں بنواکر سفر جاری رکھا۔ وادئ استور کا بالائی حصہ ہمارے بائیں جانب تا حد نظر پھیلی ہوئی تھی۔ بتایا گیا کہ کارگل کا محاذ اس وادی کے آخری سرے پر ہے۔ فیضیؔ صاحب کے والد ماجد بھی یہاں پر فوجی خدمات انجام دے چکے تھے۔ ہم لمحہ بہ لمحہ نیچے اترتے گئے۔ وادی کے دونوں طرف چھوٹے بڑے خوبصورت گاؤں ہماری نگاہوں کے سامنے آتے گئے۔ کہیں کہیں سائین بورڈ پڑھ سکے اور نام نوٹ کرسکے جو کچھ اس ترتیب سے تھے۔داس کھیرم، گُدائی استور، استور،زنیل، کشنت،پکورا،پکیول،گوری کوٹ وغیرہ۔
دوپہر کا کھانا ہم نے استور شہر کے عمر الخیام ہوٹل میں کھایا۔ نام پڑھ کر اندر جانے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ کھانا مناسب تھا البتہ خیام ؔ کی محفل کی رونق کہیں نظر نہیں آئی۔ یہ کاروباری لوگ بھی کمال کے نفسیات دان ہیں۔ ان بڑی شخصیتوں کے نام بھی ہم جیسوں کو لبھانے کی لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے بلبل ولی خان بلبلؔ اور مکرم شاہ کو کبھی یہاں آنا ہوا توکہیں دھوکہ نہ کھا جائیں۔ ہماری گاڑی نان سٹاپ وادی استور سے نکل گئی۔ جس طرح سکردو اور گنگ چھے کو پوری طرح دیکھنے کی آرزو تشنہ رہی تھی اسی طرح استورکی بھی محض جھلک دیکھ پائے اور پیاس باقی رہی۔وقت کی بے وفائی کا رونا روتے ہم استور کی زیریں وادی بلکہ گھاٹی میں سے گزرے۔ دونوں جانب عمودی چٹانوں میں محصور یہ تنگ وادی برجی سے چند کلومیٹر جنوب میں دریا سندھ سے بغلگیر ہوتی ہے ۔ دھانا دیکھ کر کوئی یہ باور نہیں کرسکتا کہ اس تنگ و تاریک گھاٹی کے اندر ایک خوبصورت علاقہ آباد ہو سکتا ہے۔ہماری کاربیتڑی بھی ایسی ہی جگہہ ہے، جہاں نووارد شخص کو ایسا ہی لگتا ہوگا۔
پانج بجے شام ہم تھکے اجسام کے ساتھ پی ٹی ڈی سی موٹل گلگت پہنچے۔ پروگرام کے مطابق ہمیں ریڈیو پاکستان گلگت کے کھوار پروگرام کے لیے انٹرویو بھی ریکارڈ کرانا تھا۔دوسری طرف بال بچوں کے لیے گلگتی یا چینی سوغات بھی خریدنے تھے۔خریداری کے لیے ہمارے پاس وقت ایک گھنٹے کا تھا۔میں اور صالحؔ بازار کی طرف بھاگے جبکہ فیضیؔ ریڈیو گلگت کی طرف گامزن ہوئے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ انٹرویو ہوٹل میں کھانے کے بعد لیا جائے گا۔اس مختصر وقت میں کیا خاک خریداری ہو سکتی تھی۔ ہم واپس ہوٹل پہنچے، کھانا کھایا اور ہوٹل شاہین کی طرف گئے جہاں ہمارے مندوبین قیام پزیر تھے اور جہاں پر ریڈیو پاکستان گلگت کے کھوار پروگرام کی اناؤنسر محترمہ حبیبہ شمس القمرؔ خواتیں مندوبیں کا انٹرویو ٹیپ کررہی تھی اور انہوں نے ہماری گفتگو بھی ریکارڈ کرانا تھی۔ پہلے کھوار کے پروڈیوسرنے اپنی بھڑاس نکالی، پھر حبیبہ شمس نے اپنے سوالات کے گھیرے میں لے لیا۔ گیارہ بجے رات ہم فارغ ہوئے۔ اپنے پیارے شمس القمرؔ وائس پرنسپل آغاخان ہائر سیکنڈری سکول گلگت جن کے ساتھ نہ صرف ہمارا خاندانی رشتہ ہے بلکہ ادبی اور استاد شاگرد کا بھی گہرا تعلق رہا ہے، کو بھی وقت نہ دے سکے۔ جس کا مجھے بے حدافسوس رہا۔

۱۱؍اکتوبر کی صبح ۹بجے ہم گلگت سے رخصت ہوئے اور چترال واپسی کا سفر شروع کیا۔چترال سے گلگت جاتے وقت رات کو سفر کیا تھا، اس لیے گلگت کا بالائی اور غذر کا زیرین حصہ ہم نہیں دیکھ پائے تھے۔ گلگت سے ملحق بسین کا گاؤں ہموار، کشادہ اور گنجان آباد ہے۔ بقول ڈاکٹر فیضیؔ اس گاؤں میں کھوارزبان بولی جاتی ہے۔اس سے آگے شیرکوٹ اور دریا کے اس پار بارگو ہے، دونوں قابل دید ہیں۔ پھر شیروٹ،گلاپور اور دایاں ہاتھ شیرقلعہ جیسا من موہ لینے والا وسیع گاؤں دعوت سیر دے رہا تھا، مگرہمارے پاس تمنائے لاحاصل کے سو اکچھ نہیں تھا۔غذر کی سڑک پھنڈر تک پکی ہے جو دور مشرفؔ کا تحفہ ہے اور شہدائے گارگل کی قربانی کا ثمر۔ گلگت سے چترال آنے جانے والے مسافر آرام دہ سفر کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم پہلی مرتبہ ۱۹۹۰ء میں اس سڑک پرسے گزرے تھے۔ دوسری دفعہ ۱۹۹۹ء میں اس پر سفر کیا تھا۔ دونوں سفر خوف کی نذر ہو گئے تھے۔ تنگ کچی سڑک، اندھے موڑ اور تیز اُتار چڑھاؤ پر سے گزرتے نہ غذر کے حسن کا نظارہ کرسکے تھے اور نہ کوئی اچھی رائے قائم کر پائے تھے۔ اس وقت یہ علاقہ چترال سے کہیں زیادہ پسماندہ تھا۔ آج کا غذر بالکل مختلف اور نیا تھا۔ اس وقت جو جگہیں غیرآباد اور بے گیاہ تھیں، آج سرسبزوشاداب تھیں۔ جو گھر کچے تھے آج وہ دلہن کی طرح سجے تھے۔ دکانیں اور بازار آباد تھے۔ دلناٹی، گوہرآباد،گِچ، گل مُتی،گرونجل کے بعد غذر کا صدر مقام گاکوچ آتا ہے۔ یہ سارے گاؤں ایک سے ایک خوبصورت اور دیدہ زیب ہیں۔ہر جگہہ ندیوں اور چشموں کا صاف شفاف پانی وافر مقدار دستیاب اور درختوں کا سایہ ہر مقام پر سستانے کے لیے حاضررہتا ہے۔ گاکوچ کسی زمانے میں انتہائی پسماندہ گاؤں تھا۔ آج ایک وسیع قصبے میں بدل چکا ہے۔ کشادہ بازار میں ضرورت کی ہر شئے ملتی ہے۔گاکوچ سے نکل کر داس گاؤں تک نظر کی پیاس بجھاتا رہا۔ اس کے بعد یاد نہیں ۔ یا تو سوگیا تھا، یا غنودگی کے عالم میں ڈاکٹر فیضیؔ کو سنتارہا ہوں گا۔ ہر دو صورتوں میں غذر کے کچھ حسین مناظر ہماری آنکھوں کے کیمرے میں مجسم نہ ہوسکے۔ راوشُن کو اس لیے نہیں بھول سکتا کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی شاعر کے ایک قدیم گیت کے چند بول مجھے بھی یاد ہیں۔وادئ غذر کی
خوش بیگمؔ اور آمنؔ عشقیہ کہانی کے زندہ کردار ہیں۔ آمنؔ کا گیت ’خوش بیگم‘ آج بھی ایک مقبول لوک گیت ہے۔ بالائی غذر کے پھنڈر اور ہندراب خوبصورت تریں گاؤں ہیں جہاں قدرت کی ہر شہکار موجود ہے۔مئی تا اگست کے دوراں یہاں سے گزرنے والا سیاح یہاں پر چند ساعتیں گزارے بغیر آگے نہیں بڑسکتا۔ یہاں کی چھوٹی جھیلیں،نوع نوع کے اشجار، رواں دواں ندی نالے، سرسبزوشاداب میدان اور پست و بالا چٹانیں ہر رہ گزر کے پاؤں میں زنجیر ڈالکر رکنے پر مجبور کریں گی۔ چند لمحے پھنڈر کی آخری جھیل کے کنارے رکے، سامنے نشیب میں پھیلے ہوئے ہندراب کے حسن کا لطف اٹھایا اور روانہ ہوئے۔ خیال تھا کہ جاوید کاکاخیل غذروی کی چائے اوربارسیت کا چشمہ پئیں ، لیکن وہی مسلہ وقت درپیش رہا۔ ہم نے شندور کے کاٹج ہوٹل میں اپنی باسی لانچ پیک کھایا اور کڑاکے کی چائے نوش جان کرکے چل پڑے۔ پھر وادئ لاسپور سے گزرے۔ آتے جاتے ایک گھونٹ پانی کابھی نصیب نہ ہوا۔ ہم شام پانج بجے مستوچ پہنچے۔ ہم میں ہر ایک کو اپنے اپنے گاؤں سدھارنا تھا۔ فیضیؔ صاحب اور صالحؔ صاحب کوبالترتیب چترال اور کوشٹ جانا تھا اور اس ناچیز کو بانگ ( لغل آباد)یارخون چلنا تھا۔ ایک ہفتے کی رفاقت سے یوں دستبرداری دل پر ناگوار گزر رہی تھی۔
؂ ہوئے تم سے جدا دل اپنا تھام کے    رہے دشمن ازل سے ہم ایسی شام کے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔