صدا بصحرا ……….انسانی وسائل کا ضیاع

………….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ ………

ایک اچھی خبر آئی تھی کہ عمران خان نے خیبر پختونخوا کے سابق گورنر لفٹننٹ جنرل (ر) سید افتخار حسین شاہ کو اپنا مشیر مقر ر کیا ہے ایک ہفتے کے بعد بُری خبر آگئی کہ سید افتخار حسین شاہ کو صوبے میں 2018 ؁ء کے انتخابات کے لئے پارٹی کارکنوں کو میرٹ پر ٹکٹ دینے کا کام سونپ دیا گیا ہے
خامہ انگشت بد نداں ہے کیا کہیے
ناطقہ سر بگر یباں ہے کیا کہئے
عمران خان کرکٹ کا ورلڈ کپ اس لئے جیتا کہ انہوں نے انسانی وسائل کو درست استعمال کیا تھا عمران خان کو شوکت خانم ہسپتال چلانے میں کا میابی ہوئی کیونکہ انسانی وسائل سے درست کام لیا گیا یہ دونوں تجربات سیاست کے میدان میں کام نہ آسکے کیونکہ اس میدان میں انسانی وسائل سے درست کا م نہیں لیا گیا انسانی وسائل کا ضیاع ہوا جاوید ہاشمی کو پارلیمانی لیڈر ہوناچاہیے تھا ہر سیشن میں پو آئنٹ آف آرڈر ، تحریک استحقاق ، کال آف اٹنشن نوٹس ، پرائیویٹ ممبرز ڈے ، نشاندار سوالات کے ذریعے پی ٹی آئی کے 41 اراکین اسمبلی ایوان پر چھائے رہتے 1970 ؁ء کی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے چار ارکان تھے اور ایوان میں انہی کا تذکر ہ تھا صوبائی اسمبلی میں اکیلے ڈاکٹر یعقو ب کا پلہ 82 اراکین پر بھاری ہو ا کرتا تھا رستم شاہ مہمند ، گلزار خان ، شیرین مزاری ، اعظم خان سواتی ، علی محمد خان ، شہر یار افریدی ،اسد عمر اور دیگر نابغہ روز گار شخصیات کی خدا داد صلاحیتوں کو بھی ضائع کیا گیا ’’ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب ‘‘ کا اصول بالائے طاق رکھ دیا گیا سابق صوبائی گورنر سید افتخار حسین شاہ گڈ گورننس کے گورو کہلاتے ہیں انہوں نے صوبے کو بہترین بلدیاتی نظام دیا تھا اُ ن کے دور میں صوبے کے اندر بے مثال ترقیاتی کام ہوئے انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ۔آئی۔ ایم سائنسز جیسا معتبر تعلیمی ادارہ قائم کیا ہزارہ ، ملاکنڈ اورکوہاٹ میں انہوں نے اعلیٰ پیمانے کی یونیورسٹیاں قائم کیں راموڑ ہ اور ڈوڈھیال کے دو یونیورسٹی کیمپس اُن کی کارکردگی کے اہم ثبوت ہیں بد قسمتی سے ملاکنڈ یونیورسٹی چھ سالوں تک نہ چل سکی 6 سال بعد پروفیسر ڈاکٹر رسول جان نے یونیورسٹی کو کامیاب کر کے دکھایا ہرزارہ اور کوہاٹ کی یونیورسٹیوں نے ابتدائی سالوں میں نمایاں حیثیت اختیار کرلی چترال میں انہوں نے ایفاد (IFAD) کے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کی عظیم عمارت کے اندر گرلز ڈگری کالج قائم کیا ، گل حمیر ا کو اس کا پرنسپل مقر ر کیا آج یہ کالج صوبے کی بہترین کالجوں میں شمار ہوتا ہے کوہاٹ ٹنل ، لواری ٹنل ، ملاکنڈ تھری کا پاور ہاؤس اور دیگر ترقیاتی کاموں کی لمبی فہرست ہے ، پشاور میں جی ٹی روڈ کو تو سیع کا منصوبہ ان کی یاد گار ہے مشیر کا عہد ہ دینے کے بعد اگر سید افتخار حسین شاہ کو تعمیر و ترقی اور گڈ گورننس کے معاملات سونپ دئیے جاتے تو آنے والے ڈیڑھ سالوں میں صوبے کے اندر پارٹی کی نیک نامی کا سبب بنتا اور انتخابات میں کامیابی کے لئے فضا بن جاتی حالات کو موافق اور ساز گار بنا نے میں مدد ملتی الیکشن میں پارٹی اُمیدواروں کا انتخاب اور ٹکٹ دینے کا کام اُن کا شعبہ ہی نہیں ہے موصوف اپنے آبائی ضلع کوہاٹ میں بھی پارٹی کارکنوں سے واقفیت نہیں رکھتے بقیہ 24 اضلاع میں پارٹی کارکنوں کے ساتھ ان کی نشست و بر خاست میں 5 سال سے زیادہ عرصہ لگے گا درست فیصلہ کر کے درست اُمیدوار کو ٹکٹ دینا سیاسی کارکن کا کام ہے اس کام میں اسد قیصر ، شوکت یوسفزی ، اور یاسین خلیل کی طرح گراس روٹس لیول سے آنے والی پارٹی کیڈر کو مہارت حاصل ہوسکتی ہے شاہ صاحب کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہوا ہے کہ ان کی معاونت کا کام شہرام خان ترہ کئی اور عاطف خان کو سونپ دیا گیا ہے دونوں پارٹی میں نو وارد ہیں کارکنوں کے لئے دونوں اجنبی ہیں میڈیا کے لئے دونوں نئے ہیں سیاسی حلقوں میں دونوں کی جان پہچان واجبی ہے شاہ صاحب ان کو ساتھ لیکر کس طرح ڈلیور کرینگے ؟ یہ شاہ صاحب کی خدا داد صلاحیتوں کے ساتھ ناانصافی اور شاہ صاحب کے تجربے کا ضیاع ہے قدرت اللہ شہاب اور شعیب سلطان خان نے اپنی سوانح عمری کی کتابوں میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں الیکشن اور کنونشن لیگ کے چیدہ واقعات پر قلم اُتھا یا ہے دونون افیسروں نے اپنی یا داشتوں میں لکھا ہے کہ ایوب خان نے ڈپٹی کمشنروں کو پارٹی ٹکٹ کی تقسیم اور اُمید وار کو کامیاب کرانے کا کام سونپ دیا اگر عمران خان خیبر پختونخوا میں یہ تجر بہ دہرا نا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے ڈپٹی کمشنر وں سے کام لینے کا گُر سابق گورنر کو آتا ہے تاہم اس گُر کو آزمانے کے لئے بڑے سے بڑے گورو کے پاس بھی انتظامی اختیارات ہونے چاہئیں ایسے اختیارات جن کے ذریعے وہ ہائر بھی کرسکتا ہو فائر بھی کرسکتا ہو ایسے اختیارات کے بغیر شاہ صاحب ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو پارٹی اُمیدواروں کے چناؤ اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل میں استعمال کر تے ہوئے سب کی محسوس کرینگے ہوسکتا ہے شاہ صاحب عمرا ن خان کے ٹی او آرزکو مسترد کردیں یہ بھی ممکن ہے جاوید ہاشمی ، جسٹس وجیہہ الدین اور اعظم خان سواتی کی طرح شاہ صاحب کو بھی کھڈے لائن لگا دیا جائے بقول غالب
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بین ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وانہ ہوا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔