داد بیداد ……فاٹا یونیورسٹی

……………ڈاکٹر عنایت للہ فیضی ………….

فاٹا یونیور سٹی میں مقامی اور غیر مقامی افراد کی بھرتی کا مسئلہ چھیڑا گیا ہے قبائلی عوام کی طرف سے اخبارات میں شکا یتی بیانات اور مراسلے شائع ہو رہے ہیں کہ فاٹا یو نیورسٹی میں ساری ملازمتیں فاٹا سے باہر بندو بستی اضلاع اور شہروں کے نوجوانوں کو دی گئی ہیں فاٹا کے بے روز گار نوجوانوں کو فاٹا یونیورسٹی میں روزگار کے مواقع سے محروم رکھا جا رہا ہے ایسی شکایات کا حکومت کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ ملازمت میرٹ پر دی جاتی ہے میرٹ کی جامع تعریف یہ ہے کہ قابض گروہ کی لاٹھی کو عر ف عام میں میرٹ کہا جاتا ہے یہ سمندر خان سمندر کی مشہور نظم ’’زما کوتک ‘‘کے مفہوم اور مرکزی خیال سے قریب تر تعریف ہے میرٹ کی اس سے بہتر تعریف نہیں ہو سکتی فاٹا کے سلسلے میں ’’قابض گروہ‘‘بہت طاقت ور ہے فاٹا کے لوگوں نے فرنگی سامراج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تاہم وطن عزیز پاکستان کے اس طاقتور قبضہ مافیا کے سامنے قبائلی عوام نے ہتھیار ڈال دے ہیں آئے روز اخبارات میں ایسی خبریں چھپتی ہیں جن میں ایف سی آر کو قبائل کے لئے اللہ کی نعمت اور رحمت قرار دیا جاتا ہے یہ بیانات قبضہ گروپ جاری کرواتا ہے قبضہ گروپ ایسے بیانات میں یہ بات بھی ڈال دیتا ہے کہ ہم قبائلی روایات کو توڑنے نہیں دینگے گویا نا خاندہ ہونا بھی قبائلی روایت ہے جہالت بھی قبائلی روایت ہے ظلم بھی قبائلی روایت ہے نا انصافی بھی قبائلی روایت ہے بے روزگاری بھی قبائلی روایت ہے باہر سے آنے والے سمگلر کا مزدور بننا بھی قبائلی روایت ہے اور قبائل ساری عمر ایسی روایات کو سینے سے لگا ئے رہینگے قبائلی عوام کو آزاد اور قانون کی حکمرانی دیکھنا نصیب نہیں ہوگا فاٹا یونیورسٹی کی جگہ آپ کسی بندو بستی علاقے کو یونیورسٹی کا نام لے لیں وہاں 80فیصد ملازمتیں مقامی لوگوں کو ملتی ہیں 20فصد اعلی تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے باہر سے آنے والوں کو دی جاتی ہیں مگر فاٹا یونیورسٹی کا معاملہ فاٹا سکرٹریٹ جیسا ہے اس کا صرف نام فاٹا ہے فاٹا کی وجہ سے اس کا بجٹ آتا ہے فاٹا کے نام پر باہر کے لوگ بھرتی ہوتے ہیں اور فاٹا سے باہر کے لوگ اپنا اُلوّ سیدھا کرتے ہیں صرف نام فاٹا کا آتا ہے اگر فاٹا بندو بستی علاقہ بن گیا تو یہ کام ممکن نہیں ہوگا فاٹا کے ہر ضلع کا ڈومیسائل ہوگا ہر ضلع کا ایک حصہ ہوگا فاٹا کے لوگ ماتحت عدلیہ میں انصاف کے لئے درخواست دے سکینگے اعلیٰ عدلیہ سے روجوع کر سکینگے فاٹا پر ایک شخص کی شخصی حکومت نہیں رہے گی فاٹا یونیورسٹی میں ملازمتوں کا حق مانگنے سے زیادہ اہم مسئلہ فاٹا کے لوگوں کو دورِجاہلیت اور زمانہ قبل از اسلام کے رسم رواج سے آزادی دلانا ہے فاٹا کے عوام کو فرنگی قانون ایف سی آر کے چنگل سے آزاد کرانا ہے اور فاٹا کے عوام کو نو شہر ہ ،سوات ،دیر اور چترال کے عوام کے برابر لانا ہے جب ایف سی آر ختم ہوگا زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج سے چھٹکار املے گا تو فاٹا کے عوام زندگی کے ہر شعبے میں اپنا حق مانگ سکینگے اور اپنا حق حاصل کر سکینگے یہ ایک شیطانی چکر سے آزادی کا مسئلہ ہے شیطانی چکر کے تین زاوئے ہیں پہلا زاویہ ایف سی آر ہے دوسرا زاویہ رسم و رواج ہے تیسرا زاویہ بد امنی ہے بدامنی ایف سی آر کی وجہ سے آتی ہے ایف سی آر مقامی رسم رواج کے تحفظ کے لئے لایا جاتا ہے اور مقامی رسم و رواج کا تحفظ ایف سی آر کو دوام بخشتا ہے تینوں برائیاں ہیں اور یہ تین برائیاں ایک دوسرے کے لئے معاون ثابت ہوتی ہیں ان برائیوں کی وجہ سے قبائل کے نوجوان تعلیم اور روز گار کے حق سے محروم ہوتے ہیں قبضہ گروپ کا مفاد اسی میں ہے کہ قبائل عوام آزادی کی نعمت سے محروم رہیں اسلئے قبضہ گروپ اپنے کارندوں کے ذریعے ایف سی آر کے حق میں بیانات جاری کرواتا ہے
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئنہ میر ا عکس ہے پس ائینہ کوئی اور ہے
فاٹا یونیورسٹی میں 80% ملازمتوں پر فاٹا کے عوام کا حق ہے اور یہ حق فاٹا کے عوام کو اس وقت ملے گا جب فاٹا کو بندوبستی علاقہ بنایا جائے گا تب تک فاٹا کے نوجوان باعزت روزگار سے محروم رہینگے قبضہ مافیا کو اس کا علم ہے کہ 5سال اور 10سال کا ٹا ئم فریم دیا جا رہا ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔