معدوم ہوتی کالاش ثقافت اور کلچرل ہیریٹیج ( قسط 2 )

……….محکم الدین ایونی………..
زبان و ثقافت کے تحفظ کے حوالے سے آگہی حاصل کرنے کے مقصد کے پیش نظر گیارہ افراد پر مشتمل ٹیم نے 29ستمبر 2016سے چترال سے گلگت کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ ٹیم کو پہلی مرتبہ تحصیل مستوج کے مقام پرواک کے آخری حصے نصر گول لشٹ میں پتھروں پر کندہ شدہ اُن قدیم آرٹ کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ جو حیرت انگیز طور پر کالاش آرٹ سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ اور کالاش مذہب میں اس آرٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ جس کا ندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ک کالاش مذہبی تہوار چتر مس ( چوموس ) کے دوران ایک رات اس آرٹ کیلئے مخصوص ہے ۔ جس میں مردو خواتین آٹے کا خمیر بنا کر انتہائی اہتمام سے اس خمیر سے مختلف جانوروں اور انسانوں کی شکلیں تیار کرتے ہیں اور اُنہیں آگ پر پکا کر رشتے داروں میں تقسیم کے ساتھ ساتھ دیوتا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور کالاش عقیدے کے مطابق پتھروں پر کندہ یہ شکلیں تہوار چترمس کے موقع پر خمیر سے تیار کئے جانے والے اُن شکلوں کے متبادل ہیں جو قدرتی طور پر خود بخود پتھروں پر کندہ ہو جاتی ہیں ۔ نصر گول لشٹ میں موجود کالاش مذہب کے پیرو کاروں کیلئے کندہ شدہ انسانی اور جانوروں کے شبیہوں سے متعلق معلومات کا حصول انتہائی دلچسپی اور اہمیت کا حامل تھا ۔ اور انہوں اس پر نہایت خوشی کا اظہار کیا ہے ۔ یہ کالاش قبیلے کے اسلاف کی باقیات ہیں ،جن کا تحفظ از بس ضروری ہے ۔ ٹیم نے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت اور محکمہ اثار قدیمہ خیبر پختونخوا سے پُر زور مطالبہ کیا ۔ کہ اس میدان میں پھیلے ہوئے آرٹ اور کالاش اثاریات کو بچانے کیلئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں ۔ کیونکہ کندہ شدہ ان نایاب آرٹ کے حامل پتھروں کو توڑ کر مقامی لوگ اپنے گھروں کی تعمیر کیلئے لے جارہے ہیں ۔ اگر بروقت ان کو بچانے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے ۔ تو کالاش قبیلے کے یہ نہایت قدیم باقیات ختم ہو کر رہ جائیں گے ۔ کالاش بزرگوں ا ور دانشوروں کو یقین ہے ۔ کہ یہ باقیات اُن سے گہری وابستگی رکھتے ہیں ۔ اور یہ اُن کے اباؤ اجداد کی نشانیاں ہیں ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اُن کے مذہبی اثاریات کو دانستہ طور پر مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کندہ شدہ پتھروں سے کچھ فاصلے پر چند سال پہلے ہزارہ یونیورسٹی نے ایک بیرونی یونیورسٹی کے تعاون سے کھدائی کرکے ڈھائی ہزار سال قدیم انسانی ڈھانچے دریافت کئے تھے ۔ اس لئے اس بات کو تقویت ملتی ہے ۔ کہ کالاش عمائدین کی باتوں میں وزن موجود ہے ۔ تاہم اس کی مکمل معلومات اثار قدیمہ کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں ۔کالاشہ زبان اور ثقافت کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی اس کمیٹی نے چترال سے شندور کے راستے گلگت پہنچنے کے بعد اگلے روز آغا خان کلچر سروس پاکستان کے آفس کا دورہ کیا ۔ جس میں فنانس منیجر کریم صافی اور افشاں نے ٹیم کو خوش آمدید کہا ۔ اس موقع پر بتایا گیا ۔ کہ اے کے سی ایس پی گلگت بلتستان کے سات زبانوں پر کام کر رہا ہے ۔ جن میں بلتی ، شینا ، بروشسکی ، کھوار، ڈومائی اور وخی وغیرہ زبانیں شامل ہیں ۔ اور ہر زبان پر 75فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ،ان زبانوں اور کلچر کے تحفظ کیلئے گلگت بلتستان حکومت نے فنڈ فراہم کیا ہے ۔ اور اس کام کی انجام دہی میں بلتستان کلچر ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن اے کے ای ایس پی کی مددگار ہے ۔ کریم صافی نے بتایا ۔ کہ ثقافتی ورثوں کا تحفظ ادارے کا بنیادی مقصد ہے ۔ اور گلگت بلتستان میں کئی شاہی قلعے جنہیں مقامی میروں اور راجوں نے ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان کو عطیہ کیا ہے ۔ اے کے سی ایس پی کے اثار قدیمہ کے ماہرین نے مرمت اور تزین کرکے ان قلعوں کو سیاحوں کیلئے کھول دیا ہے ۔اس موقع پر منیجر اے وی ڈی پی وزیرزادہ نے اُنہیں بتایا ۔ کہ کالاش تہذیب و ثقافت اور ثقافتی ورثے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں ۔ لیکن مقامی لوگوں کو ان کا ادراک نہیں ہے ۔اور نہ حکومت کی طرف سے اس ثقافت کو بچانے کیلئے ابھی اقدامات کئے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے۔ کہ کالاش مذہبی مقامات کی تعمیر بھی جدید دور کے مطابق تعمیر کئے جارہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ثقافت کو انتہائی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے ۔ اس لئے ٹیم کی گلگت بلتستان کی وزٹ کا مقصد بھی یہی ہے ۔ کہ ان ثقافتی ورثوں کی اہمیت کے بارے میں آگہی حاصل کی جائے ۔ تاکہ کالاش وادیوں میں کالاش ثقافتی ورثے جس تیز رفتاری کے ساتھ ختم کئے جارہے ہیں ۔ لوگوں میں آگہی پیدا کرکے اُن کا تحفظ کیا جا سکے ۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔