
ڈھلنے لگی ہے شب بخیر اندھیروں کی گود میں
ہر طرف اک دیپ مالا لگانے کو جی چاہتا ہے
انجان سی آوازپا جو آتی ہے دور دراز سے
بے تأمل اُس دشت میں جانے کو جی چاہتا ہے
ان کوہ پیکر کی دامن میں سوئے سکوت کو
کر کے شور شرابا ڈرانے کو جی چاہتا ہے
ان پانیوں میں خوب نہانے کو جی چاہتا ہے
سارے غموں کا بوجھ بُھلانے کو جی چاہتا ہے
وہ شخص جس سے ان بن کے جدا بہت ہوئے
اس کی بستی کی دھول اڑانے کو جی چاہتا ہے
شادؔ یہ خلاصہ تو بے ذوق بے دام سا رہا
قصیدہ کوئی طویل سنانے کو جی چاہتا ہے
