دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ثقافتی سفارت کاروں کا دورہ گلگت، آلات موسیقی پر اہم انکشافات )

………………..تحریر شمس الحق قمرؔ بونی ، حال گلگت

گلگت ر بلتستان اور چترال گلیشروں سے مالامال فلک بوس پہاڑی چوٹیوں کے دامن میں ہزاروں سالوں سے آباد وہ علاقے ہیں جو کہ شدید موسمی حالات کی وجہ سے سال میں تقریباً پانچ مہینے ایک دوسرے سے جدا رہنے کے باوجود بھی اپنی ثقافت ، کلچر اور تہذیب کے حوالے سے ایک لڑی میں پروئے ہوے تسبیح کے دانوں کی مانند آپس میں پیوست ہیں ۔ گلگت بلتسان میں کھوار بولنے والوں کی تعداد چترال کے برابر یا کچھ کم ہوگی لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے کھوار زبان بہت تیزی سے گلگت بلتسان میں پھیل رہی ہے ۔ زبان محبت کا وہ واحد ذریعہ ہے جو انسانوں کو ملانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔کھوار زبان کی گلگت بلتسان میں پنپنے کے پیچھے یوں تو کئی ایک عوامل کارفرما ہیں لیکن گزشتہ ایک عشرے سے چترال کے مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے مسلسل دورے چترال اور گلگت کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ممدو معاون ثابت ہوئے ہیں ۔چترال سے جتنے بھی لوگ یہاں آئے ، گلگت بلتسان کے لوگوں سے ملے اُن سب کا یہ کہنا ہے کہ گلگت بلتسان کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کی اپنی ثقافت سے گہری وابستگی اور لگاؤ ہے ۔ یہاں کے باسی اپنی ثافت کو بہتر اور معنی خیز انداز میں دوسروں سے بانٹتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتسان کی طرف سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ یہاں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد و رفت اتنی زیادہ ہے کہ گرمیوں میں ہوٹلوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی ۔ یہاں کی ثقافت میں زمانے کے جدید تقاصوں کے مطابق اختراعات عمل میں آئی ہیں جوکہ دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دیتی ہے ۔ ثقافت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قریب سے دیکھنے اور سیکھنے کے ضمن میں چترال کے مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے دوروں سے جہاں چترال کو تھوڑا بہت فائدہ ملا ہے وہاں چترال کے باسیوں نے بھی اپنی زبان و ثقافت کا گہرا اثر چھوڑا ہے ۔ چترال سے جب بھی کوئی وفد آتا ہے اپنے ساتھ اپنی زبان کی چاشنیوں کو بھی لے آتا ہے ۔تاہم ایک دوسرے کو یہ باور کرانے کے ضمن میں کہ ہم یعنی چترال اور گلگت بلتسان ایک ہی تہذیب کے دو نام ہیں ، ہمارے موسیقار اور گلوکاروں کی خدمات تحسین کے قابل ہیں۔ شاعری اور موسیقی سماجی یکجہتی میں وہ کردار ہیں جو ایک کنبے میں ماں اور با پ کا ہوتا ہے ۔ماں باپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اولاد میں فرق نہیں کرتے بیٹا ، بیٹی ، فرمان بردار اور نافرمان اولاد ماں باپ کی نظر میں یکساں ہوتی ہے ۔بالکل اسی طرح کسی قوم کے شعرا اور موسیقار و گلوکاروں کا بھی وہی کردار ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مذہب، قومیت ، قبیلہ اورعلاقے کے تعصاب سے بالاتر ہوکر لوگوں کے مابین محبت کی اکائی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں اپنے پیچھے محبت کا وہ اثر چھوڑ جاتے ہیں جو پشتوں تک لوگوں کو ایک ساتھ جوڑے رکھتا ہے ۔
چترال کے جن موسیقاروں اور شاعروں نے گلگت بلتسان کے ساتھ اپنی محبتون کو بانٹا ہے اُن میں بابا فتح الدین ، شجاؤالحق، ظفر حیات، افضل اللہ افضل،انصار الہی، محسن حیات ، گل نواز خاکی ، آفتاب عالم ،ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ، فضل الرحمان شاہدؔ ، شہزادہ تنویر الملک، عبد الولی خان عابدؔ ، شیر ولی خان اسیرؔ ، محکم الدین محکمؔ ، ظفراللہ پروازؔ ،ذاکر محمد ذخمیؔ ، صائب ولی اسراؔ ، حفیط اللہ امینؔ اور سید کائیناتیؔ صاحب شامل ہیں ان میں سے کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو ہر سال گلگت کا دورہ کرتے ہیں جن میں ایڈوکیٹ عبد الولی خان عابدؔ قابل ذکر ہیں ۔ موصوف ادب کی دنیا کے اپنے رفقا کے علاوہ میدان چوگان بازی کی ٹیم بھی اپنی معیت میں لے آیا کرتے ہیں جس سے لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے ، کھیلنے اور ایک دوسرے کے خاندانی اور خونی رشتوں کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا موقعہ ملتا ہے ۔ موصوف غذر اور یاسین کے کھوار بولنے والے بستیوں میں لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں او راُن کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آسکیں ۔ اسی وجہ سے یاسین اور غذر کے لوگوں کی کثیر تعداد آپ کے گرویدہ ہے ۔ محبت کا یہ سفر مختلف رنگ میں جاری ہے ۔
ان تمام کوششوں میں منصور شبات اور اُ ن کے رفقا ء کی کاوشیں کئی ایک حوالوں سے اہم ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ منصور شباب کو گلگت میں وہی مقام حاصل ہے جو نصرت فتح علی خان کو جاپان میں حاصل تھا ۔ منصور شباب جب اپنی آواز کا جادو جگانے لگتے ہیں تو شرکائے محفل سراپا محو حیرت بن جاتے ہیں ۔ شرکائے محفل آنکھیں جھپکانے کو شبابؔ کے ساتھ بیتنے والے قیمیلمحات کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔ منصور شباب ہر سال گلگت کا تفصیلی دورہ کرتے ہیں ۔ گلگت بلتسان کی تمام وادیوں میں آپ اور آپ کے رفقائے کار کی خوب اؤ بھگت ہوتی ہے اور آپ کے فن کو پرُخلوص پذیرائی ملتی ہے ۔ موسیقاروں کی اس جماعت کی میزبانی کے لئے گلگت کی تمام ادبی انجمنیں اور اور زبان کے پرچار اور ترویج و ترقی سے متعلقہ تنظیمیں اپنی تمام مصروفیات کو پسِ پشت ڈال کر دیدہ و دل فرش راہ کیے دیتے ہیں ۔ منصور شباب ؔ گزشتہ ایک عشرے سے چترال سے گلگت میں چترال کے سفیر کی حیثیت سے تشریف لاتے ہیں ۔آپ کی آمد کا مقصد صرف موسیقی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایک سماجی و ادبی مشن کی تشکیل ہے ۔ شبابؔ اب کی بار جب گلگت آئے تو میزبانی کے فرائیض چترال کو اپنا دوسرا گھر اور چترال کے باسیوں کو اپنے خاندان کے افراد تصور کرنے والی گلگت کی کئی حوالوں سے معتبر اور قد آور شخصیت جناب عبد الخالق تاجؔ اور اُن کے صاحب زادہ ظفر وقار تاجؔ نے نبھائے ۔
اس دورے میں منصور شباب ؔ کی معیت میں ڈاکٹر کرامت، ریٹائرڈ صوبیدار علی شیر خان، انعام ، نادر شاہ حجاب ؔ اوربلبل آمان دلکش کی رفاقت نے موسیقی کی تمام محافل کو چار چاند لگا دیا ۔ انہوں نے گلگت بلستان میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران ضلع غذر کے علاوہ گوجال کے مختلف علاقو اور قصبوں کا بھی دورہ کیا جن میں شش کٹ، گل مت، حسینی، پھسو، خیبر اور سوست شامل ہیں ۔ گوجال وہ وادی ہے جہاں کے باشندے وخی نژاد ہیں غور طلب بات یہ ہے کہ وخی اور کھوار کلچر میں قریبی مماثلت اور بے حد یکسانیت پائی جاتی ہے اُن کے گانوں کی دھنیں بھی کھوار شینا اور بروشسکی دھنوں سے ملتی ہیں شاعری میں بیان ہونے والے مضامین کے متن بھی ایک دوسرے سے خوب میل کھاتے ہیں ۔موسیقی کے پردے میں منصور شبابؔ سرکاری اور غیر سرکاری شخصیات کے علاوہ ادبی تنظیموں کے اعلی عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں ہیں ۔ آپ کی ملاقاتوں میں چترال اور گلگت بلتسان کی دھنوں کو در پیش مسائل کے علاوہ گلگت بلتسان خصوصاً چترال کے ادب اور موسیقی پر ہونے والی غیر مانوس زابانوں کی یلغار اور اُن سے بچاؤ کے طریقوں پر غور ہوا ۔ آپ نے تمام ملنے والوں کو ایک پلیٹ فارم میں آکر اپنی زبان اپنے ادب اور خاص کر شینا، بروشسکی ، وخی اور کھوار موسیقی میں غیر ضروری طور پر مدغم ہونے والی دھنوں پر تشویش کا اظہار کیا ۔شباب ؔ کا یہ دورہ دو حصوں میں منقسم رہا ۔ ہر نشست موسیقی سے شروع ہو تی تھی اور خالص ادبی گفتگو پر ختم ہوتی تھی ۔ ادبی نشستوں میں دونوں طرف سے اپنی موسیقی کو زندہ رکھنے کے جدید طریقوں پر بحث و مباحثے ہوتے رہے ۔ موضوع کا محور یہ تھا کہ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ چترال اور گلگت بلتسان کی موسیقی کا بنیادی سانچہ ایک ہے تو کیا وجہ ہے کہ دوسری زبانوں کی موسیقی کا رنگ غالب آجائے ؟ ( اس یلغار کا اشارہ پشتو دھنوں کے ادغام کی طرف تھا ) اس سوال پر کئی ایک پہلوؤں سے غور کیا گیا ۔ موسیقی پر یلغار کی کئی ایک وجوہات میں سے غیر ثقافتی آلاتِ موسیقی کا استعمال سب سے بڑی وجہ ہے ۔ آلات موسیقی پر بحث و تمحیص کا لب لباب یہ تھا کہ مختلف کلچر یازبانوں کی موسیقی کے آلات استعمال کرنا بہترین جدت پسندی ہے ورنہ ہماری موسیقی ترقی کے راستوں پر گامزن نہیں ہو سکتی ۔تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن آلات کو اپنی موسیقی کے انداز اور حقیقی دھنوں کے مطابق استعمال کیا جائے ۔ اگر ہمارا کوئی فنکار رباب ، کی بورڈ، باجا، ہرمونیم گیتھار،یا کوئی اور آلہ بجاتا ہے تووہ قابل صد تحسین و آفرین ہے لیکن مذکورہ آلات کے استعمال کا انداز دوسری زبانوں کے انداز کے بجائے اپنی زبان کے انداز کے مطابق کیا جائے تو ہماری موسیقی میں وہ بہتری اور میٹھاس آسکتی ہے جو کسی دوسری زبان میں نہیں ہے ۔ دوسری زبانوں کی موسیقی میں مستعمل آلات کو اُن دھنوں کے رنگ کے ساتھ اپنی موسیقی میں مدغم کرنے سے موسیقی کے علاوہ زبان کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔ اس امر سے صرف ہماری دھنیں ہی زنگ آلود نہیں ہو تیں بلکہ اُن دھنوں میں کوئی گانہ پیوست کرتے ہوے ہماری اپنی زبان کی شاعری کے الفاظ کی ادائیگی میں بھی فتور آتا ہے ۔ کسی زبان کے الفاظ ہمیشہ سے اپنی زبان کی دھنوں کے تابع ہوتے ہیں۔ ہم جب دوسری دھنوں پر زور دیتے ہیں تو الفاظ کے اُتار چڑھاؤ اورطوالت و اختصار میں کمی بیشی کی وجہ سے الفاط کے مطالب و مفاہیم میں بھی تبدیلی واقع ہوجاتی جس سے کسی شاعر کا خیال اور دل کی آواز اپنے اصلی لباس میں سامعین تک نہیں پہنچ پاتیں نتیجے کے طور پر غزل یا گانے محض الفاط کی غیر ضروری ہیر پھیر کی وجہ سے خیال اور مطلب سے عاری نظر آتے ہیں ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ نئے آلاتِ موسیقی کے ساتھ غیر زبانوں کی دھنوں کابڑا گہرا چھاپ ہماری زبان شینا ، بروشسکی، وخی اور کھوار میں نظر آنے لگا ہے ۔ جو کہ ہماری روایتی سروں ، دھنوں ،ترنم ، آہنگ اور طرز کے لئے زہر ہلاہل سے کسی قدر کم نہیں منصور شباب اس بات پر بار بار زور دیتے رہے کہ ہماری یعنی گلگت بلتسان کی تینوں زبانوں کی موسیقی میں تین آلات ہماری ثقافتی تاریخ کا حصہ ہیں جیسے شینا میں بانسری، بروشسکی میں رباب اور کھوار میں ستار ، کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ ان میں سے بانسری اور ستار چراغ سحری کی مانند ہیں تاہم رباب بروشکسی میں نو وارد آلۂ مو سیقی ہونے کی وجہ سے کسی حد دتک سانس لے رہاہے لیکن ستار اور بانسری کی اہمیت کم ہونے کے ٓثار واضح نظر آرہے ہیں اگر خدا ناخواستہ یہ معدوم گیے تو ہماری ثقافتی تاریخ بھی صفحہ ہستی سیمٹ جائے گی۔ انہیں زندہ رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اب تک چترالی ستار ، چترالی ستار ہی کے نام سے پوری دنیا میں ہماری پہچان ہے ۔ اس کی اہمیت کے کم ہونے کی وجہ وقت کے ساتھ موسیقی میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ اس کے بجانے کے انداز کا میل نہ کھانا ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی گانے کے ساتھ آلات موسیقی کو بجانے کا اپنا ایک طریقہ ہے لیکن چترالی گانوں میں ستار ایک ہی ساز میں شروع سے لیکر آخر تک ہو بہو اُسی ترنم کے ساتھ بجایا جاتا ہے جس ترنم سے گانے ولا گا رہا ہوتا ہے ۔ ستار بجانے کے طریقوں میں جدت کی ضرورت ہے ستار کو کسی گائے جانے والے گانے کے ترنم میں ہو بہو بجانے سے تکرار کا گہرا احساس ہوتا ہے جس سے سننے والی نو جواں نسل کو اکتاہٹ ہوتی ہے اسی لئے اس کے معدوم ہونے کے خدشات پیدا ہورہے ہیں کیوں کہ نئی نسل کو نئے انداز کی ضرورت ہے تاہم یہ جدت اُس وقت ممکن ہے جب ہمارے ستار نواز کسی مکمل سُر کے بنیادی سات ٹکڑوں کو فنکارانہ انداز سے ایک دوسرے سے ملاتے ہوے واپس اُسی مخصوص سُر میں داخل ہو نے کی مشق کریں یوں ان سات ٹکڑوں میں سے جس ٹکڑے سے وہ سُر یا دھن بنی ہے اُسی ٹکڑے کو بجائے جانے والے ساز سے منطقی انداز سے دوبارہ پیوست کرنے سے جدید موسیقی کا احساس اور رنگ پیدا ہوگا ۔ یہ کام اگرچہ بے حد مشکل ہے تاہم ممکن ضرور ہے ۔گلگت اور چترال کے گلوکاروں کا خیال ہے کہ اگر ہم نے آج سے اپنی ثقافت کو ممکنہ خطرات سے بچانے کی کوشش شروع نہ کی تو ایک دن آئے گا کہ ہماری اپنی دھنیں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی ۔ یہ بات اپنی جگہے پر درست ہے کہ مختلف دھنوں کی آمیزش سے ساز بنتے ہیں اور آمیزش کی ضرورت اُس وقت ہوتی ہے جب اپنی زبان میں پہلے سے کوئی دھن موجود نہ ہوں۔ ہمارے یہاں اپنی دھنوں کی کمی نہیں ہے ۔ کوئی نئی دھن بنانا اگر مشکل ہے تو ٹھیک ہے نہ بنے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن جو دھنیں پہلے سے موجود ہیں انہیں کرید کر کوئی نئی دھن بنائی جا سکتی ہے اگر وہ بھی ہم سے نہیں ہو سکتا ہے تو کم از کم دوسری زبان کی دھنوں کو اپنی زبان میں بے جا جگہ دیکر اپنی نازک روایات کا خون کرنے سے اجتناب کیا جائے ۔ ہماری دھنوں کی بنیاد اور ترتیب محض آواز کے سُر وں پر استادہ نہیں بلکہ یہ دھنیں گلگت بلتسان اور چترال کی تاریخ کی امین ہیں ۔اِن دھنوں میں ہندو کش و ہمالیہ اور قراقرم کے مشکل پہاڑی سلسلوں کے دامن میں بسنے والے انسانوں کی مذاہبی و سماجی اور معاشی روایات، رسم و رواج اور قربانیوں کی داستانیں پوشیدہ ہیں ۔موسیقی کو صرف کسی بھی انداز سے پیش کرکے یا گا کر اس کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی اہمیت اور تقدس کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس ضمن میں تھوڑا سا غیر سنجیدہ طرز عمل قوموں کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے
گلگت میں آخری رات کی نشست میں وزیر اعلی ٰ گلگت کے قریبی کارندوں نے بھی شرکت کی ۔شبابؔ کا خیال ہے کہ جب تک خالق تاج ؔ ، جمشید دکھی ؔ ، امین ضیا ء ،جابر ،ا ور ظفر وقار تاج ؔ صاحب، جیسی شخصیات کی محبتیں اسی طرح ساتھ رہیں تو ہم مل کر گلگت بلتسان اور چترال کو غیر مرئی بیرونی یلغار سے بچا سکتے ہیں ۔اس دورے کی کامیابی کا سہرا کمشنر وقار تاج کے سر سجتا ہے کہ جنہوں نے اپنی گوں نگو ں مصروفیات سے وقت نکالر کر اپنے پورے ایک ہفتے کو چترال کے دوستوں کے نام کر دیا جوکہ چترال کے تمام با ذوق اور ادب شناس لوگوں کے لئے معنی رکھتا ہے ۔ جس معاشرے میں موسیقی کو علاقے کی نامور شخصیات ، سیاسی رہنماؤں اور حکومت کی سر پرستی حاصل ہو وہاں کے ادب اور ثقافت میں ترقی آسکتی ہے اور جس معاشرے میں ادب و ثقافت کو ترقی ملتی ہے وہ معاشرے دوسری اقوام کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروانے میں سبقت پاتے ہیں ۔ گلگت بلتسان میں زبان و ادب اور موسیقی کو بڑی حد تک حکومت کی سر پرستی حاصل ہے ۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتسان جناب حافظ حفیظ الرحمان کا کوئی بھی خطاب ایسا نظر نہیں آتا جس میں ادیبوں ،شاعروں اور موسیقاروں کی اہمیت اور پذیرائی کی بات نہ ہوئی ہو ۔لیکنچترال میں حکومت کی جانب سے زبانوں کی سرپرستی کا فقدان ہے ۔ چترال میں بہت کم احباب موسیقی کے تقدس کو سمجھتے ہیں ۔ شبابؔ اور شبابؔ کے رفقائے کار کا اس سال کا دورہ گلگت چترال اور گلگت بلتسان کی ادبی تاریخ کا بہترین حصہ بن گیا ۔ جو صدیوں تک تر و تازہ رہے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔