توجہ کا طالب۔۔۔۔۔

فخرعالم آغاخان ہائر سیکنڈری سکول چترال

یوں تو وطن عزیز میں ہر قسم کے قواعدوضوابط کو پامال ہوتے ہو ئے دیکھا جا سکتا ہے۔ملکی آئین سے لیکر ٹریفک قوانین تک،ہر نوعیت کے اصولوں اور ضابطوں کی دھجیاں اڑتے نظر آتے ہیں۔ان قوانین کو توڑنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کا حوالے سے متعلق اداروں کی سست روی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ان حالات میں ہر باشعور شہری کڑھتا رہتا ہے۔
مگر جو چیز میرے اندر کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہیں،وہ بورڈز ہیں جو کچروں کے ڈھیر پر آویزاں پائے جاتے ہیں اور جن پر درج ہوتا ہے کے اس جگہ کچرہ ڈالنے والوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے گا یا یہ کہ اس سے اتنے روپے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔یہ بورڈ عموماًمیونسپل کمیٹی والے حضرات آویزاں کرتے ہیں اور اپنے ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔
ہمارا تو ان حضرات سے بس یہی شکایت ہے کہ اگر آپ لوگ ان کچروں کے ڈھیر کو صاف کرنا اپنے شان کے منافی سمجھتے ہیں توبراہ مہربانی اس قسم کے بورڈ بھی آویزاں کرنے سے گریز کریں اور اگر فرض شناسی کا عشر عشیر بھی آپ میں موجود ہے تو پہلے زحمت فرما کر گندگی اٹھالیں اور پھر جو مرضی آویزاں کرنا چاہے کرلیں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگ گندگی کے ڈھیر پر یہ بورڈ دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ جو ادارہ سالوں سے سرراہ پڑے ا س گندگی کو ٹھکانے لگانے کی زحمت نہیں کرتا ہے،وہ کوڑاکرکٹ پھینکنے والوں کے خلاف کیا خاک کاروائی کریگا۔جنہیں فرض ادا کیے بغیر بھی تنخواں بیٹھے بٹھائے ملتا ہے،وہ کچرہ پھینکنے والوں کو پکڑتے کیوں پھرے؟
اس قسم کے سوالات لوگوں کی نظر میں قانون کو بے وقعت بنا دیتی ہیں۔انکے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اس ملک میں قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ۔قانون توڑ کے بچاجاسکتا ہیں۔
ضابطوں اور اصولوں کی پاسداری محض قوانین مرتب کرنے یا سزائیں مقر ر کرنے سے نہیں بلکہ قانون لاگو کرنے کے طریقوں اور سزا پر عمل درآمد کرنے سے ہوتی ہے۔ انتظامیہ پہلے تو کوڑاکرکٹ ہٹا کر ندی نالے ،سڑکیں ،بازار ،گلیاں اور محلے صاف کرے اورپھر گندگی ادھر اُدھرپھینکنے والوں پر صرف پچاس روپے ہی جرمانہ عائد کرکے وصول کرنا شروع کردے تو خلاف ورزی کرنے کی کوئی بھی جسارت نہیں کر سکے گا۔ہر جگہ صفائی برقرار رہے گی۔
چترال ٹاؤ ن میں ہر جگہ گندگی کے ڈھیر اور اُن پر لگے یہ بورڈ متعلقہ اداروں کے غفلت کی گواہی دے رہے ہیں۔ٹاؤن اور اسکے نواح میں صفائی کا انتظام نہایت ناقص ہے۔جگہ جگہ گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ندی نالے ہر قسم کے خس وخاشاک ساتھ لیکر بہتے ہیں۔بائی پاس روڈ کے کنارے جہاں گرین بیلٹ ہونا چاہئے،وہاں لوگ کھلم کھلا ایک سیدھ میں بیٹھ کر’’آبیاری‘‘ میں مصروف نظر آتے ہیں۔اسکی وجہ لوگوں کے مثانوں کی کمزوری اور فطرت پسندی کے ساتھ ساتھ سرکاری ٹوائلٹوں کی عدم دستیابی بھی ہے۔
گلیوں اور محلوں میں بھی صفائی کی یہی حالت ہے۔ اسکے علاوہ بازاروں کے ساتھ ساتھ پڑے ٹنوں کے حساب سے کچروں کے ڈھیر پچھلے کئی سالوں سے عجب شانِ بے نیازی کے ساتھ پڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں کے دوکانداروں اور رہائشیوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ وہ انتظامیہ سے شکوہ کر رہے ہیں اور انتظامیہ جوابِ شکوہ میں صرف بورڈ ہی آویزاں کرنے پر اکتفاء کر رہا ہے!!!
اس حوالے سے ہم ضلعی انتظامیہ کے توجہ کا طالب ہیں۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔