صد بصحرا ……یونیور سٹی اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے

……………ڈاکٹر عنایت للہ فیضی ؔ ……………

خبر آئی ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے لئے اداروں کو فعال بنانے اور ہر ضلع کے اندر یونیورسٹی کے قیام کی ہدایت کی ہے اجلاس میں بونیر ،لوئیر دیر اور چترال میں اعلیٰ تعلیم کے نئے اداروں اور یونیورسٹیوں کے قیام پر غور کیا گیا بونیر میں عبدل الولی خان یونیورسٹی کے کیمپس کی یونیورسٹی کا درجہ دینے کی سفارش کی گئی وزیر اعلیٰ نے اس کے چارٹر کی تیاری کا حکم دیا لوئیر دیر میں میڈیکل کالج اور انجنیرنگ یونیورسٹی کے لئے کرائے کا مکان لیکر کلاسیں شروع کرنے کی منظوری دیدی گئی چترال میں مجوزہ یونیورسٹی کے لئے پر اجیکٹ ڈائر یکٹر کی تقرری کی ہدایت کی گئی اور چترا ل میں گرلز ڈگری کالج کے لئے زمین خریدنے کا حکم دیا گیا خبر خوش آئیندہے اور شکر کا مقام ہے کہ حکومت کے ایوانوں میں رات ڈھل چکی ہے،سویرا آنے کو ہے صبح کا ذب نمودار ہوا ہے صبح صادق کی آمد آمد ہے مگر لوگ کہتے ہیں ’’بڑی دیرکی مہربان آتے آتے ‘‘بات سادہ سی ہے صوبائی حکومت جون 2016 میں بجٹ پیش کرتے ہو ئے ملاکنڈ ڈویژن میں دویونیورسٹیوں کے ساتھ ایک میڈیکل کالج اور ایک انجینرنگ یونیورسٹی کے قیام کی سکیم سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کی تھی دستور کے مطابق ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیف پلاننگ آفیسر کو ان منصوبوں پر کام کرکے آگست کے مہینے میں حکومت کو رپوٹ دینی تھی کلاسوں کا آغاز ہونا تھا بونیر اور چترال کی یونیورسٹیوں کا معاملہ بہت آسان تھا بونیر میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے کیمپس کو بو نیر یونیورسٹی کا دیکر چارٹر عطا کرنا تھا چترال میں دوسب کیمپس مو جود تھے ان کو ملا کر ایک یونیورسٹی بنانے کیلئے کاغذی کاروائی کرنی تھی عبدل الولی خان یونیورسٹی کے فیکلٹی کے لئے مناسب انتظام کیا ہواتھا پی ایچ ڈی ساتذہ موجود ہیں اور اساتذہ کی بڑی تعداد اس وقت جرمنی،برطانیہ ،امریکہ ،ملائشیا،ترکی وغیرہ کی بڑی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے یونیورسٹی کے اندر بھی پی ایچ ڈی کا انتہائی معیاری پروگرام چل رہا ہے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی اگلے چند سالوں میں فیکلٹی کے تعلیمی استعدا د میں اضافے پر غور کریگی اور باہر سے اعلیٰ تعلیم یافتہ فیکلٹی لانے کی کوشش کرے گی کسی بھی یونیورسٹی کا پراجیکٹ ڈائریکٹر اور بانی وائس چانسلر یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے اور اس کو درست سمت دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے سابق گورنر سید افتخار حسین شاہ نے چار بڑی یونیورسٹیاں قائم کیں کو ہاٹ ،ہزارہ اور حیات آباد کی یونیورسٹیاں کامیاب ہوئیں ،ملاکنڈ یونیورسٹی 6 سالوں تک کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکی اسی طرح شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی شیرینگل کے ابتدائی 4 سال ضائع ہو گئے ڈاکٹر ناصر علی خان اور ڈاکٹر احسان علی کو جس یونیورسٹی کا سربراہ بنایا گیا وہ تابنا ک نتائج دینے لگا انسٹیٹوٹ آف مینجمنٹ سائنسز حیات اباد نے ابتدئی 4 سالوں میںیونیورسٹی رینکنگ میں نام حاصل کیا والٹن اکیڈیمی لاہور کی طرح اعلیٰ سرکاری افیسر وں کی تربیت کے لئے اس کا انتخاب ہوا ڈاکٹراحسان علی نے ہرارہ یونیورسٹی اور عبد ل الولی خان یونیورسٹی کو اعلیٰ مقام دیا صوابی اور چارسدہ میں دو الگ الگ یونیورسیٹیاں بنا کر حکومت کے حوالے کی ہماری موجودہ صوبائی انتظامی خلا کو پُر کرنے میں لگی ہوئی تھی صوبائی چیف سکرٹری کے پاس اختیارات نہیں ہیں کسی بھی محکمے کے چیف پلاننگ افیسر اور ملحقہ محکموں کے انتظامی افسران کے پاس اختیار نہیں ہیں اختیار ات سیاسی عہدیداروں کے پاس ہیں مگر سیاسی عہدیداروں کے سامنے کوئی منصوبہ ،کوئی الگ دفتر ،کوئی الگ سسٹم ،کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے کوئی ایسا مکینزم نہیں ہے جس کی مدد سے کام کو آگے بڑھایا جا سکے اس وجہ سے ہر سال اے ڈی پی میں رکھی ہوئی رقم کو خرچ کئے بغیر واپس کیا جاتا ہے اگر ملاکنڈ ڈویژن میں بونیر یونیورسٹی ،چترال یونیورسٹی لوئیر دیر کے اندر میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ہے تو تو اختیارا ت سول سکرٹریٹ کے محاز حکم کو سپرد کرنے ہونگے ایم پی اے اور ایم این اے صاحبا ن کی مداخلت ختم کر کے خالصتاً پیشہ ورانہ بنیادوں پر قابل اور تجربہ کار پراجیکٹ ڈائریا وائس چانسلر مقرر کر نے سکیم کو آگے بڑھانا ہوگا ایم پی ایز اور ایم این ایز کے پا س چچا ،ماموں والا فرسودہ طریقہ کار ہے ایسے طریقہ کا ر سے اعلیٰ تعلیم کا کوئی ادارہ قائم نہیں ہوگا صوبائی حکومت ماضی میں ڈاکٹر عطاالرحمن کا نام لیا مگر ان کو اختیارات نہیں دئیے لفٹننٹ جنر ل افتخار حسین شاہ کا نام لیا گیا مگر ان کو بھی اعلیٰ سطح کی کسی مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا دو سابق بیوروکریٹ رستم شاہ مہمنداور گلزار خان پی ٹی آئی میں آگئے لیکن پارٹی قیادت ان کے تجربہ ،علم اور ان کی محنت و قابلیت سے کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکی کم از کم ملاکنڈ کی چار نئی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لئے پیشہ ورانہ مہارت کے حامل ،نیک نام اور قابل پراجیکٹ ڈائریکٹر وں کا نتخاب ہونا چاہئے ایسے لوگ سول اور فوجی افیسروں میں موجود ہءں ہماری یونیورسٹیوں میں موجود ہیں جو ہر قابل کی کمی نہیں ہے جو ہر قابل کو پہچاننے کے لئے ’’جو ہری ‘‘ کی ضرورت ہے قدر رز ،زرکر شناسد قدرِجوہر،جوہری ‘‘اچھا ہوا کم از کم بر ف پگھل گئی ،وزیر اعلیٰ کی صدارت میں میٹنگ ہوئی ،یونیورسٹیوں کے قیام کا ذکر ایک بار پھر اخبارات میں آیا آگے جو کام ہے وہ خالصتاً پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا کرتا ہے اس لئے صوبائی چیف سکرٹری کو مکمل اختیارات کے ساتھ یونیورسٹیوں کے قیام کا ٹاسک ملنا چاہئے ،

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔