اہل ایبٹ آباد ہم آپکی محبتوں کے مقروض ہیں

… اقرارالدین خسرو…

کوئی بھی آفت یا حادثہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے, اور اس امتحان میں وہی لوگ کامیاب تصور کیے جاتے ہیں جنہوں نے صبر اور شکر سے کام لیا, کیونکہ دین اسلام ہمیں صبر اور شکر کی تلقین کرتا ہے, صبر اس لیے کہ حادثہ اللہ رب العزت کی طرف سے ایک آزمایش ہے اسے آزمائش سمجھ کے صبر کرنا چاہیے, اور شکر اسلیے کہ ہم روز اللہ تعالی کی طرف بے شمار نعمتوں کا لطف اٹھاتے ہیں, ان میں سے اگر اللہ تعالیٰ کسی قریبی رشتہ دار, عزیز, یا دوست کی صورت میں کوئی نعمت چھین بھی لے اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں جن کا ہم سے کوئی حساب نہیں مانگا جاتا ہے اسلیے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید نعمتوں سے نوازے.. اور اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی ناشکر ہے, اور بندوں میں بھی وہ لوگ جنہوں نے مصیبت کی گھڑی میں آپ کا ساتھ دیا ہو ان کا شکریہ ادا کرنا بھی آپ پر لازم ہوجاتا ہے… سانحہ حویلیاں اہل چترال کیلیے ایک بہت ہی بڑا سانحہ تھا ہر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی. جس پہ ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل افسردہ تھا اور ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہوگا ؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے.. ہم نہ اپنے پیاروں کو بچانے کی کوشش کرسکتے تھے, نہ انکی لاشوں کو کندا دے سکتے تھے, ایسے حالات میں جن لوگوں نے بغیر کسی لالچ کے انسانی ہمدردی کے تحت ہمارے پیاروں کو بچانے کی کوشش کی یا ان کی لاشیں اٹھانے کیلیے تکلیفیں برداشت کی, زخمی ہوے, دوردراز علاقوں سے سفر کرکے بچے, بوڑھے, جوان اور خواتین وہاں پہنچے, ہم ان کے ممنون اور احسان مند ہیں.وہ ہمارے حقیقی محسن ہیں.. لہذا آج میں بحیثیت ایک چترالی چترال کے تمام غمزدہ خاندانوں, بھائیوں , ماؤں اور بہنوں کی طرف سے سب سے پہلے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہونگا جنہوں نے مصیبت کی گھڑیوں میں ہمارا ساتھ دیا, ان میں سب سے پہلے حویلیاں ایبٹٹ آباد یا جائے حادثہ سے ملحقہ گاؤں کے اپنے بھائیوں کا جن میں سے زاہد نامی ایک بھائی سب سے پہلے یعنی حادثے کے دس منٹ بعد وہاں پہنچ جاتا ہے پھر دوستوں کو فون کرکے بلا لیتا ہے.. اہل علاقہ سب سے پہلے کثیر تعداد میں بچے بوڑھے, جواں, مائیں اور بہنیں وہاں پہنچ جاتے ہیں, اور جان کی بازی لگاکر پہلے ہمارے پیاروں کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں اس دوران آئیل ٹینکر پھٹنے اور آگ لگنے کی وجہ سے درجنوں زخمی بھی ہوجاتے ہیں, مگر ہمارے پیاروں کی قسمت میں تو موت لکھی تھی, وہ جانبر نہیں ہوتے ہیں, پھر رات گیے تک پہاڑوں میں رہنا آگ بجھاکر انکی لاشیں نکالنے سے لیکر ان کے کچھ بچے ہوے سامان محفوظ کرنے تک جس پیار محبت اور انسان دوستی کا ثبوت دیا ہے. ہمارے لیے جس قسم کی تکلیفیں برداشت کیں, حدیث شریف کے مطابق ” مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں ” بالکل اسی طرح ہمارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کے ہماری کمی کو جس طریقے سے پورا کیا. اس کا اجر تو اللہ تعالیٰ ہی انہیں دیگا, ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ” اہل ایبٹ آباد ہم آپکی محبتوں کے مقروض ہیں ” ان کے علاوہ پاک آرمی کے جوان جو اندرونی, بیرونی محاذ سے لیکر مصیبت کی ہر گھڑی میں ہمارے شانہ بشانہ رہے ہیں ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں… ایبٹ آباد کی ضلع انتظامیہ, ایبٹ آباد پولیس, ہسپتال انتظامیہ, اور جتنے بھی لوگوں نے مصیبت کے ان لمحات میں ہمارا ساتھ دیا ہمارے پاس شکریے کے الفاظ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہم ان کے احسان مند ہیں. بس یہی کہہ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کار خیر کیلیے تمہیں اجر عظیم عطا کریں,, ہم آپ کی محبتوں کے مقروض ہیں..

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔