مہنگائی ،بے روزگاری اور عدم رواداری

قاری فدا محمد

ہمارے ہاںصنعت و حرفت، کاروبار اور دوسرے جائز ذرائع آمدن کی ناپیدی اور  عدم دستیابی کی وجہ سے  عام طور پر سرکاری ملازمت  کی حصولی ہی کو بہتر مستقبل کا ضامن تصور کیا جاتا ہے۔گو کہ اس سوچ کو ہر گز مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا ، مگر ہم (چترالی) اپنی فطری سستی،کاہلی، محنت سے فرار اور  مشقت سے بے زار  خصلت کی بنا پر چار و ناچار ملازمت کی حصولی پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہر باپ کی   خواہش ، ہر ماں کی   تمنا اور ہر فرد کی  آرزو ہوتی ہے کہ وہ یا  اس کا عزیز  سرکاری ملازمت اختیار کرے۔    اگلے وقتوں میں کسی غریب کے بچے کے لیے خواہ وہ جوہر قابل ہی کیوں نہ  ہوتا، چند مخصوص شعبوں کے علاوہ ملازمتوں کا حصول ممکن ہی نہیں تھا۔ تگڑی سفارش کی عدم دستیابی اور افسرانِ بالا کی جیبیں گرمانے  سے معذوری سےبڑے بڑے کارآمد نوجوانوں  کی جوہریت گہنا کررہ جایا کرتی تھی۔

اس وقت اللہ کے فضل سے اُس ظلم و زیادتی کا دور تقریبا تقریبا ختم ہوا چاہتا ہے اور ہر تعلیم یافتہ شخص  کے لیےاپنی قابلیت کے بل  پر بڑے سے بڑے عہدے تک رسائی ممکن ہو چلا ہے۔ این ٹی ایس نظام اپنے سُقم  کے باوجود باصلاحیت نوجوانوں کے لیے امید کی کرن اور ٹیلنٹ کی قدردانی کا واحد ذریعہ ہے۔   ہماری نکبت  و  تنزل اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ٹیلنٹ کی ناقدری  ،سفارش و   رشوت اور خوف و طمع کی بنیاد پر  نااہلوں کی تعیناتی کا مروجہ فیشن ہے۔ اب قانون  کی رسی سے اس خباثت کا گیرا تنگ ہونے چلا ہے ۔مگر جب تک  معاشرے کو اَخلاقی طور پر کسی گہَن سے بے زار نہ بنایا جائے گا، محض قانون کے ذریعے کسی  برائی کا مکمل سدباب ممکن ہی نہیں ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں جو معاشرتی قباحتیں اور خرابیاں جنم لیتی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ایسے میں سرکار کی جانب سےروزگار کے مواقع کو قصداََ دراز کرنا  سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔  ایک اسکیل پر موجود لوگوں کو محض قریبی اسٹیشنوں پر لے جانے کے لیے دوبارہ اسی اسامی اور اسی اسکیل کے لیے  اپلائی کرنے کی قانونی اجازت فراہم کرنا بے روزگاروں سے زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔کتنی تعجب کی بات ہے کہ گزشتہ سال این ٹی ایس کے ذریعے ایس ایس ٹی تعینات ہونے والے ہمارے ہنر مند بھائی اُسی اسامی کے لیے امسال دوسروں کا حق چھیننے دوبارہ میدان میں کود آئے ہیں۔ اور اس بار کامیاب امیدواروں کی لسٹ میں سبقت  لے جانے والوں کی اکثریت پرانے ملازمین کی ہے۔  جن کی نئی پوسٹنگ سے کئی اسٹیشنز عرصہ تک خالی رہیں گی۔

ملازمت میں رہتے ہوئے اگلی گریڈ کے لیے مقابلہ میں شریک ہونا ایک معقول بات ہے، مگر پہلے سے تقرر شدہ پوسٹ اور اسکیل کے لیے پھر سے میدان میں آکر دوسرے نوجوانوں کی روزی ہتھیانا سراسر ناانصافی ہے۔ ہمیں اس کی علت کا بھی پتا ہے مگر وہ اتنی بھونڈی ہے کہ کسی مہذب معاشرے میں اس کی خاطر دوسرے کا نقصان کرنا تصورمیں بھی نہیں لایا جاسکتا۔
اس محیر العقل رخصت اور نامناسب طرز عمل کی وجہ سے نہ صرف تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار رہنے پرمجبور ہوتے ہیں، بلکہ نئی تعیناتی کی بنا پر ان کے موجودہ اسٹیشنز میں آسامیاں سال دو سال خالی رہ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے عرصہ تک طلبہ کی پڑھائی غارت جاتی ہے، بالخصوص بورڈ میں امتحان دینے والے طلبہ کو اس بازیگری کے ہاتھوں جس نقصانِ عظیم کا سامنا ہوتا ہے، وہ ہر ذی شعور آدمی محسوس کرسکتا ہے۔ مگر وائے سیاہ بختی! کہ احساس زیاں ہی جاتا رہا۔
حکومت اور محکمہ تعلیم کو نوجوانوں کی بے روزگاری کا قَلَق اور غم نہ ستائے تو نہ سہی، مگر طلبہ کی محرومی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس غیر معقول “رخصت” کو ہر حال میں ختم کردینی چاہیے اور جواساتذہ پرانے پوسٹ کے لیے نئے سرے سے میدان سَرکربیٹھے ہیں، انھیں ان کی پرانی تعیناتی پر برقرار رکھ کر میرٹ پر آنے والے نئے نوجوانوں کی تقرری عمل میں لانی چاہیے۔ یا پھر فوری طور پر ان نئی خالی شدہ اسامیوں پر اسی مقابلہ کے شرکاء میں سے میرٹ کے مطابق تعیناتی کی جائے۔
اساتذہ کرام سے بھی گزارش ہے کہ محض قانون کی رخصتی کا فائدہ اٹھا کر دوسروں کی روزی روٹی اور طلبہ کے قیمتی سال برباد کرنا کوئی مناسب طرزِ عمل نہیں ہےمعلمین کو محض قانون کا سہارا لیکر بیٹھنا ہرگز زیب نہیں دیتا۔ہمارے اقدار و روایات میں اَخلاقیات نام کی بھی کوئی چیز پائی جاتی ہے، جس کا التزام اگر معلمینِ اَخلاق ہی سے نہ ہو پائے تو پھر کس سے اس کی توقع رکھی جائے گی؟

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔