سی ڈی ایل ڈی فنڈ سے چترال کے عوام کے انتہائی اہم اور بنیادی مسائل کوحل کرنے میں مدد ملی ہے۔فنانس ینڈ پلاننگ آفیسر نور الامین

چترال (محکم الدین ) گذشتہ سال کے تباہ کُن سیلاب کے بعد چترال میں متاثرہ مختلف افراسٹرکچر کی بحالی اور نئے منصوبوں کی تعمیر کے سلسلے میں سی ڈی ایل ڈی کے فنڈ سے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جارہے ہیں ۔ جن میں حفاظتی پشتوں کی تعمیر ، ایریگیشن چینلز ، لنک روڈز پینے کے صاف پانی ، پلیں ، سنٹیشن ، ووکیشنل سنٹرز ، سکولوں کی چاردیواری واش رومز اور بچوں کیلئے پارک کی بحالی کے منصوبے شامل ہیں ۔ منصوبوں کی مجموعی تعداد 222ہے ، جوکہ تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔ سال 2015-16میں بارہ یونین کونسلوں میں ان منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 33کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے ۔ اور کمیونٹی کی شراکت سے اُن کی نشاندہی کے بعد مختلف پراجیکٹس پر کام کا آغاز کیا گیا تھا۔ جن میں سے کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں ۔ اور بعض پر کام جاری ہیں۔ 75 حفاظتی پشتوں پر ساڑھے دس کروڑ ، 76ایریگیشن چینلز پرگیارہ کروڑ پچاسی لاکھ ، 28 رابطہ سڑکوں پر چار کروڑ چونسٹھ لاکھ ، 10واٹر سپلائی سکیمز پرایک کروڑ گیارہ لاکھ ، 18 چینیلائزیشن پر تین کروڑ تینتیس لاکھ ، 7پلوں پر ایک کروڑ چوہتر لاکھ جبکہ ایک سنٹیشن پراجیکٹ پانچ ووکیشنل سنٹرز ایک سکول چاردیواری بمعہ ٹائلٹ اور چلڈرن پارک کی تعمیر پر ایک کروڑ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے خرچ کئے جا چکے ہیں ۔ جو کہ ضلع کی سطح پر منصوبوں پر خرچ کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے ۔ ڈسٹرکٹ آفیسر فنانس اینڈ پلاننگ نورالامین نے ایکسپریس سےOLYMPUS DIGITAL CAMERA خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ سی ڈی ایل ڈی فنڈ سے چترال کے عوام کے انتہائی اہم اور بنیادی مسائل کوحل کرنے میں مدد ملی ہے ۔ خصوصاً سیلاب کے بعد چترال میں انفراسٹرکچر کی بحالی اسی فنڈ سے ممکن ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ 2016-17کیلئے ستائس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ جبکہ اس مرتبہ چترال کے مزید 12یونین کونسلوں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں 31دسمبر 2016تک لوگوں ، علاقائی تنظیموں اور ویلج و نائبر ہوڈ کونسلوں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں ۔ اور یہ منصوبے پانچ لاکھ سے لے کر پچیس لاکھ روپے کی لاگت کے ہوں گے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ سی ڈی ایل ڈی کا مقصد مقامی آبادی کو اپنی ترقیاتی ترجیحات و منصوبوں پر عمل درآمد کرنے اور مختص فنڈ تک مقامی دیہی تنظیمات کی رسائی اور اس کے موثر استعمال کو ممکن بنا نا ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔