گولین ہائیڈرو پاور تنازعہ اور ہمارا المیہ

  تحریر: مقصود الرحمان چترال

موبائل: 03449703168

   معاملات کو اختلافات اور سیاست کی بھینٹ چڑھائے بغیر پائے تکمیل تک پہنچانا گویا ہماری سرشت میں شامل ہی  نہیں ہے  اور ہر کام میں اختلاف پیدا کرکے ناگزیر امور کوبھی متنازعہ بنانا اور اس بنیاد پر نفرتوں کا بیج بوکر انانیت کی ہوا اور علاقیت کی نمی سے کدورتوں کے بے ثمردرخت اُگانا  ہماری  پسماندگی کے بنیادی عوامل  میں سے ہیں۔بدقسمتی سے ہم نے اپنی عادت کے مطابق گولین کے مقام پر تعمیر ہونے والے 2 میگاواٹ کےبجلی گھر ،جس کی تکمیل کے سب شدت سے منتظر تھے،آخر ِکار نادیدہ قوتوں کی کارستانی اور اپنی سادہ لوحی  سے متنازعہ بن کر چھوڑ دیا۔

  چترال ٹاؤن میں بجلی کی قلت اور عوام کی دقت سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہونے کی بناپر پورے چترال کا بوجھ بھی اسی ٹاؤن پر  ہے۔ جس کی ضروریات  سے ہر کوئی واقف اور مجبوریوں سے ہر ایک آگاہ ہے۔  چترال ٹاؤن میں بجلی کے حوالے سے جو مشکلات درپیش تھیں ، اس کے پیش نظر  “پاور کمیٹی” کے نام سے ایک غیر سیاسی تحریک اٹھی ،  جس کے پرزور مطالبہ اور باربار کے احتجاج وغیرہ کی بنا پر گولین کے مقام پر ایک غیر سرکاری ادارہ کے زیر انتظام 2 میگاواٹ بجلی گھر کی تعمیر کا کام شروع ہوا، جس کے دوسالہ تعمیر کے کسی مرحلہ میں بھی کوئی متنازعہ بیان ، کوئی دعویٰ داری، کوئی  ایسی ویسی بات  سامنے نہیں آئی،مگر افسوس کہ تکمیل کے آخری مراحل میں ، جب ہم اس کے ثمرات سمیٹنے والے تھے ، ایک شوشہ چھوڑکر بدمزگی کا ماحول پیدا کردیا گیا۔   سیاسی اختلافات اور اداراتی چپقلش بالآخر قومی مفاد پر غالب آگئی، اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی روش  کے ہاتھوں دو علاقوں کے لوگوں کے مابین رسہ کشی کی سی فضا پیدا ہوکر رہ گئی ہے۔    ترجیح کے پہلو کو پیش نظر رکھنے کے بجائے حق جتانے  اور اپنا ثابت کرنے کے لیے عجیب قسم کے دلائل کا سہارا لیا جارہا ہے۔  اس دھکم پیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی نظر آتی ہے کہ ہم نے ذاتی مفاد کو قومی مفاد ، کم تر کو برتر اور چھوٹے مقاصد کو بڑے مقاصد پر قربان کرنے والا   دل ابھی تک پیدا نہیں کیا۔  پھر غضب یہ کہ  منصوبے کی ابتدا ء کے وقت عجلت میں ممکنہ تنازعات ، پیش آمدہ خدشات اور اندیشوں کا سرے سے کوئی جائزہ ہی نہیں لیا گیا۔

پروفیسر ممتاز حسین صاحب کی اس بات میں کافی وزن پائی جاتی ہے کہ  ” س منصوبے کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی تھی۔ این جی اوز کے تحت منصوبے کسی گاوں کی کمیونٹی کی مدد سے اور ان کی زیر نگرانی  میں مکمل کیے جاتے ہیں۔ آخر میں کمیونٹی منصوبے کی ملکیت اور انتظام سنبھال لیتی ہے۔اس منصوبے کو ایس آر ایس پی نے خود بنایا اور کسی خاص کمیونٹی کا براہ راست اس میں کردار نہیں تھا۔ اب بھی کوئی کمیونٹی اس کی ملکیت اور انتظام سنبھالنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ بلکہ سچ پوچھیے تو شہر میں اس قسم کی کمیونٹی موجود ہی نہیں ہوتی جو اس طرح کے منصوبوں کو سنبھال سکے۔ اب اگر ایک لا وارث قسم کا منصوبہ وجود میں آجائے تو اس کی وراثت پر جھگڑا ہونا کچھ عجب نہیں۔ اگر آپ کو میری بات پر اعتراض ہے تو براہ کرم اُس تنطیم کا نام بتائیے جو اس منصوبے کا مالک ہونے جارہی ہے”.

پروفیسر صاحب کا مزید کہنا ہے کہ :
“گولین والا  ہائیڈرو پاور ہاوس تو پیڈو لے بھی نہیں سکتا کیونکہ یہاں پر واپڈا کا سسٹم ہے۔ اور واپڈا اس قسم کے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اس لیے بڑا کنفیوژن یہ ہے کہ اس بجلی گھر کو چلائے گا کون۔شاید شہر کی پاور کمیٹی یہ کام کرے گے۔”

اگر معاملہ ویساہی ہے ، جیسا کہ پروفیسر صاحب نے بیان کیا، تو اسے ایس آر ایس پی کی نااہلی اور اہم نوعیت کے کاموں میں غیر سنجیدگی کا مظہر قرار دینے کے سوا چارہ نہیں۔ اتنی بڑی تنظیم اس قدر غیر سنجیدہ اور خوش فہمیوں کی بنیاد پر  کام کرسکتی ہے، یہ کبھی سوچا تک  نہ تھا اوراس طرح ہوم ورک اور کسی ٹھوس  منصوبہ بندی کے بغیر شروع کیا جانے والا کام  تنازعہ کا شکار نہ ہوگا تو اورکیا ہوگا؟ لہٰذا ایس آر ایس پی اپنی غلطی تسلیم کرکے جلد از جلد اس کا حل تلاش کرے، تاکہ علاقوں کی سطح پر پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ اور منصوبہ سے متعلق کنفیوژن دور ہو،  اور کسی چپقلش کے بغیر معاملے کا تصفیہ کیا جاسکے۔

بعض عناصر اس معاملے میں سیاسی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف “پوائنٹ اسکورنگ” کے شوق میں رنگ میں بنگ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یوں لوہا گرم دیکھ کر وار کرنے  کے عادی عناصر کے ہاتھوں چترال کا پر امن اور شائستہ ماحول بدمزہ ہوتا جارہا ہے۔  اوراس طرح کے سنجیدہ و حساس معاملات میں غیر سنجیدہ حرکتیں قوموں کی زندگی میں دور رس  اثرات کے حامل ہوتی ہیں۔ اس قسم کے حساس معاملات کو تختہ مشق بنا کر  انا کو تسکین اور مخالفین کو زک پہنچانے والے ہر گز  قوم اور علاقہ کے مخلص نہیں ہوتے۔ لہذا قوم کو چاہئے کہ افواہوں کی بنیاد پر جذباتی ہونے کے بجائے اصل اسٹیک ہولڈرز کے فیصلے کا انتظار کرے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔