داد بیداد …..ٹرمپ ،امریکہ کا نیا دور

………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ………

کھرب پتی تاجر، صنعتکار اورسیاحتی انڈسٹری کے ٹائیکون ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 45ویں صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھایا ہے۔ حلف برداری کی تقریب میں 8لاکھ مہانوں کو بلایا گیا تھا۔ سیکورٹی کے انتظامات پر 28ہزار فوجی تعینات تھے پاکستان کے دو سابق صدور جنرل (ر) پرویز مشرف اور آصف علی زرداری حلف برداری کی تقریب میں مدعو تھے امریکی صدر اپنی ذاتی صوابدید پر 100ڈالر خرچ نہیں کرسکتا، اس کے باوجود دنیا کا طاقتور ترین حکمران مانا جاتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابراہیم لنکن کو سب سے قابل، دانشور اور بہترین صلاحیتوں کا مالک تصور کیا جاتا تھا۔ ذاتی قابلیت ، وجاہت، اور دولت کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار بھی قابل لوگوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا دورِصدارت کیساہوگا۔ اس کا دارومدار اُن کی شخصیت پر نہیں۔ امریکہ کے سسٹم پر ہے۔بیوروکریسی پر ہے۔ پارٹی کی پالیسی پر ہے۔ اور پارلیمنٹ کی قانون سازی پر ہے۔ امریکی کا نگریس سے تین مہینوں کے لئے فنڈ ریلیز ہوتا ہے۔ قانون ساز حکومت کے کام کو دیکھتے ہیں۔ اگلے تین ماہ کا فنڈ روک لیتے ہیں اور باقاعدہ جواب طلبی کے بعد فنڈ ریلیز کرتے ہیں۔ امریکہ کی عدالت صدر کو معزول کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ امریکی کانگریس میں صدر کا موخذہ (Impeachment) ہوسکتا ہے۔
1970 ء کے عشرے میں صدر نکسن پر عدالت میں مقدمہ چلایا گیاتو معزولی سے بچنے کے لئے اُنہوں نے استعفیٰ دیدیا۔ رچرڈ نکسن وہ سیاستدان تھا جس نے چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات استوار کرکے عالمی سیاست میں امریکہ کو بہت بڑی فتح دلائی تھی۔ اُن پر جو مقدمہ چلا وہ واٹر گیٹ سیکنڈل کہلاتا ہے۔ واٹر گیٹ بلڈنگ کا نام ہے اس بلڈنگ میں حزب اختلاف کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ سی ۔ آئی اے اور ایف ۔بی۔آئی کے ذریعے میٹنگ کی کاروائی کو خفیہ ٹیپ کی مددسے ریکارڈ کیا گیا۔حزب اختلاف نے ٹیپ عدالت میں پیش کئے۔ یہ سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔ سرکاری اہلکار کے ذریعے ، سرکاری خرچ پر حزبِ اختلاف کی میٹنگ میں جاسوسی آلات نصب کرنے پر امریکی صدر کو عہدہ صدارت اور اپنے منصب سے ہاتھ دھونا پڑا۔ نائب صدر جیرالڈفورڈ ان کی جگہ عہدہ صدارت پرفائز ہوئے۔ امریکی تاریخ کا یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ امریکی طاقت کا راز صدر کی ذاتی قابلیت میں مضمر نہیں۔ بیوروکریسی ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی طاقت میں مضمر ہے۔ امریکی سسٹم میں فردِ واحد کی کوئی اہمیت نہیں۔ دو ایسی وجوہات ہیں جن کی بناء پر ڈونلڈ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی کا ٹکٹ ملا۔ پارٹی کے اندر اُن کی نامزدگی کے کٹھن مراحل طے ہوئے۔ پہلی وجہ یہ ہے وہ نئی سوچ ، نئے فکر اور اچھوتے اسلوب کے مالک ہیں۔ہر کام کو نئے اسلوب سے کرنے کا گُر جانتے ہیں ۔ انگریزی میں اس فن کو “Creativity”کہا جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہر سیاسی جماعت کا اُمیدوار پارٹی فنڈ خرچ کرتا ہے، طاقتور گروہوں سے چندہ جمع کرکے انتخابی مہم چلاتا ہے۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ انتخابی مہم کا سارا خرچہ وہ اپنی جیب سے ادا کرے گا۔کسی کا احسان نہیں اُٹھائے گا۔ دونوں نئی باتیں ہیں۔ انتخابی مہم میں انہوں نے دہشت گردی، تارکین وطن اور اسلامی ملکوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات دئیے۔ اسلامی دنیا اور بالخصوص پاکستان میں اس پر شدید ردّ عمل ہوا ، مگر یہ انتخابی مہم کا معاملہ تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی پر سبقت لینے کے لئے اس طرح کے بیانات کی ضرورت تھی۔ نومبر سے جنوری تک دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہوا صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈھائی مہینوں میں امریکی بیوروکریسی اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے باقاعدہ پٹی پڑھائی گئی۔ ہر روز 6گھنٹے کا سیشن ہوا۔ ہر سیشن میں امریکی پالیسی اور امریکی مفادات کے تقاضوں کا ذکر ہوا ہر سیشن میں یہ بات بتائی گئی کہ وینزویلا میں ہمارے کیا مفادات ہیں، کیوبا میں کیا مفادات ہیں، افغانستان اور پاکستان میں کیا مفادات ہیں، چین اور روس کا راستہ کہاں روکنا ہے؟ اپنی ایک تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ داعش، القاعدہ، بوکوحرام، الشباب جیسی دہشت گرد تنظیموں پر امریکی ٹیکس دہندہ گان کی ایک پائی خرچ نہیں کی جائیگی۔ بریفنگوں میں نئے امریکی صدر کو بتایا گیا کہ ان تنظیموں سے امریکی فوج کا کام لیا جاتا ہے۔ ان تنظیموں پر امریکی ٹیکس دہند ہ گان کا پیسہ ضائع نہیں ہوتا ۔یہ تنظیمیں ہماری فوج کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں ۔ ایک اور تقریر میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی فوج کو بیرونی ملکوں میں نہیں بھیجا جائے گا۔ کسی دوسری ملک کی سیکورٹی ہماری ذمہ داری نہیں۔ بریفنگوں میں ان کو بتایا گیا کہ چین اور روس کا راستہ روکنے کے لئے افغانستان، شام ،عراق ، سعودی عرب ، کویت اور پاکستان جیسے ملکوں میں امریکی فوج کو رکھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ ری پبلکن پارٹی کے اقتدار اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکی پالیسیاں وہی رہینگی، جو پہلے تھیں۔ ان پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وطن عزیز میں 2018ء انتخابات کا سال ہے۔جنرل (ر) پرویز مشرف اور سابق صدر آصف علی زرداری دونوں ری پبلکن پارٹی کے بہت قریب رہے ہیں۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے ادوار میں پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی ری پبلکن پارٹی کے ساتھ اشتراک عمل سے کام کرچکی ہے۔ دونوں کے مراسم قدیم بھی ہیں، پختہ بھی ہیں ۔ اس لئے 2018ء کے انتخابات کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور شروع ہوگا۔جو یقیناًڈیموکرٹیک پارٹی کے دور سے بہتر ہوگا۔ سول نیوکلیرٹیکنالوجی کا معاہدہ ہوجائے گا۔ خطے میں بھارت کی بالادستی کو کم از کم اگلے 3سالوں کے لئے نکیل ڈالی جائے گی۔ ری پبلکن پارٹی کا دور پاکستان کے حق میں ڈیموکریٹک پارٹی کے دُور سے بہرحال بہتر ہوگا۔ پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔