دادبیدا د…..لواری اڈوں کا انسانی المیہ

……………ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ …………

لواری درہ،لواری ٹاپ ،لواری ٹنل خیبر پختونخواحکومت کے ساتھ پشاور ،دیر اور چترال کی مقامی انتظامیہ ،ہوم ڈیپارٹمنٹ کا مستقل دردِ سر ہے وفاقی حکومت اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) بھی اس کو اہم مسئلہ قرارد یتی ہے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ مسئلہ آجاتا ہے منگل 25 جنوری کو دیر میں پھنسے ہوئے مسافروں کی طرف سے روڈ بلاک کرنیکا واقعہ پیش آیا یہ لوگ پیر کی شام کے 9 بجے پشاور سے 28 گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں نکلے تھے صبح تین بجے یہ لوگ دیر پہنچے پیر کی شام کو لواری سرنگ تک جانے کے راستوں پر چترا ل اور دیر دونوں اطراف کے ڈیڑھ فٹ بر ف پڑی تھی منگل کی صبح تین فٹ برف تھی اُوپر سے بر فباری ہورہی تھی راستہ کھولنے کیلئے مشینری کو حرکت میں نہیں لا یا جا سکتا تھا لا محالہ موسم صاف ہونے تک انتظار کرنا تھا مسافروں کا مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں لواری سرنگ تک جانے دیا جائے مقامی انتظامیہ کا مو قف تھا کہ 15 کلومیٹر اُوپر جاکر منفی 10 درجہ حرارت سردی میں بر ف کے اندر پھنس جانے سے دیر بازار میں 2 درجہ سنٹی گریڈ کی سردی اور خشک سڑک ،آبا د جگہ بہتر ہے حاد ثات کی امکانا ت نہیں ہیں انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوگا خواتین ،بچوں اور بزرگ شہریوں کو بیماریوں اور معذوروں کو تکلیف یا زحمت نہیں ہوگی اسلئے انتظامیہ نے تمہاری بھلائی کے لئے قافلے کو روکا ہوا ہے این ایچ اے حکام نے فیصلہ کیا کہ منگل کی جگہ بدھ کو موسم صاف ہوا تو ٹنل کھول دیا جائے گا مگر مسافروں نے شور ڈالا ایسی طرح چترال سائیڈ پر میر کھنی کے مقام پر گاڑیوں کو روکا گیا وہ بھی شور مچاتے رہے کہ ہمیں ٹنل تک جانے دیا جائے مگر آگے ٹنل راستے پر 3 تین فٹ برف پڑی تھی اُوپر سے مزید برف باری ہورہی تھی یہاں پر لامحالہ لواری اڈہ اور انتظامیہ کا کردارسامنے آجاتا ہے پشاور اور چترال کے اڈوں سے گاڑیوں کے آنے جانے کا مناسب شیڈول اور انتظام ہو جاتے تو دیر انتظامیہ اور میر کھنی پوسٹ کے لئے مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ہزاروں مسافروں کے لئے مسئلہ نہیں ہوگا سب سے بڑا مسئلہ پشاور انتظامیہ اور پشاور شہر کے اڈوں کا ہے گذشتہ کئی سالوں سے قصہ خوانی بازار کے اطراف میں 6 اڈے قائم ہیں پہلے گاڑیاں بھی قصہ خوانی سے جاتی تھیں ملک سید شہید نے قصہ خوانی کے جگہ حاجی کیمپ میں انکو سٹنڈ الاٹ کر وادئیے مگر قصہ خوانی کے اڈے بند نہیں ہوئے یہ اڈے شام کے وقت گاڑیاں نکالتی ہیں کیونکہ صبح اور دن کے وقت اڈہ فیس اور پولیس کا بھتہ دینا پڑتا ہے ایک گاڑی پر ہزار دو ہزار کا خرچہ اُٹھتا ہے اس خرچ کو بچانے کیلئے رات کی تاریکی میں گاڑیاں روانہ کی جاتی ہیں اڈہ مالکان کا فائدہ ہوتا ہے مگر مسافروں کا ستیا ناس ہوجاتا ہے اکثر رات کے وقت حادثات بھی پیش آتے ہیں ڈاکے بھی پڑتے ہیں مگر اڈہ مالکان ٹس سے مس نہیں ہوتے اور ستم ٖظریفی یہ ہے کہ اس پہلوپر کوئی بات بھی نہیں کرتا اگر پیر کی شام کو گاڑیاں نہیں نکالتے منگل کی صبح موسم کو دیکھ کر گاڑیوں کو روانہ کیا جاتا تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا اس وقت مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی ،جمیعتہ العلمائے اسلام ،جما عت اسلامی ،اے این پی اور پی ٹی آئی چترا ل کے تما م معتبرلیڈر موسم گزارنے کے لئے پشاور اور اسلام آباد میں مقیم ہیں ان میں سے کوئی ایک عوامی لیڈر اگر ڈپٹی کمشنر پشاور ایس پی ٹریفک ،ایس پی ارین پشاور اور پشاور کے مئیر سے ملا قات کر کے شام کے وقت چلنے والی گاڑیوں کے اڈے بند کر ائے صبح کے وقت گاڑیوں کی روانگی کو لواری سرنگ کو جانے والے راستے پر بر فباری کی تازہ ترین صورت حال سے مشروط کرلے ٹیلیفون پر کلیرنس ملنے کے بعد پشاور سے گاڑیاں روانہ ہو جائیں تو 6 گھنٹوں میں دیر پہنچ جائینگی کوئی کھپ نہیں ہوگا لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہوگا اسی طرح چترال سے لواری سرنگ کے لئے روانہ ہونے والی گاڑیوں کو کلیرنس ملنے کے بعد جانے کی اجازت دیدی جائے تو میر کھنی کے بے آب و گیا ہ بیابان میں پھنس کر رہ جانے کے بجا ئے چترال بازار کے آباد علاقے میں گھنٹہ ،دو گھنٹہ یا دن انتظار زیادہ مہنگا نہیں پڑے گا یہ مسئلہ 2020 میں کام مکمل ہونے ،اپروچ روڈ تیا ر ہونے اور ٹنل سے باقاعدہ آمد و رفت جاری ہونے کے بعد بھی اپنی جگہ رہے گا جون 2017 ء میں صرف برائے نام افتتاح ہو رہا ہے تعمیراتی کام 2018 اور 2019 میں بھی مکمل نہیں ہوگا ٹنل کا بنیادی ڈیزائن 1967 ء میں اس غلط ڈیزائن کا افتتاح ہوا 5 کلومیٹر بننے کے بعد کام بند ہوا 2006 ء میں پھر وہی ادھورا کام مکمل کرنے کا بیٹر اُٹھایا گیا اگر یہ ٹنل قولندی سے عشریت تک ڈیزائن کیا جاتا 1967 ء والے ڈیزائن کا ریکارڈ مو جود ہے اُس وقت کسی نے اپروچ روڈ پر توجہ نہیں دی کنسلٹنٹ نے سردی کے مو سم کا جائزہ نہیں لیا اب یہ ما ضی ہے اور فائلوں میں ہے2017 ء میں پشاور اور چترال کی انتظامیہ کو لواری سرنگ جانے والی گاڑیوں کے آڈوں کا انتظام بہتر بنا کر انسانی المیوں کی روک تھام کرنی چاہئے ڈاک ،اخبارات اور کو رئیر سروس وغیرہ کے لئے روزانہ شفٹ تبدیل ہوتے وقت کم از کم 5 گاڑیوں کی اجازت ہونی چاہئے تا کہ کا روبار زندگی میں خلل نہ ہوایک بڑے غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے ہمارے بھائی سو شل میڈیا پر سامبو کمپنی کا نام باربار لیتے ہیں سامبو ایک تعمیراتی ٹھیکہ دار ہے اُس کا ایک کاروباری معاملہ ہے ٹنل کھولنا ،بند کرنا ،اجازت دینا ،نہ دینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے این ایچ اے حکام کا مسئلہ ہے اگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے تعاون کیا ،انتظامیہ نے اڈوں کو کنٹرول میں رکھا تو دوبارہ انسانی المیہ نہیں ہوگا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔