دھڑکنوں کی زبان………… برف ’’بھاری‘‘

…………….محمد جاوید حیات……..
2 جنوری سے برف باری کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔مستان کا جھونپڑی نما گھر ۔۔۔معصوم طفیل جو اپنی ٹوٹی پھوٹی پنسل سے اپنا ہوم ورک کرتا ۔۔۔سلمیٰ اور ان کی ماں ۔۔۔کئی سالوں سے سردیاں عافیت سے گزری تھیں ۔۔۔ان جھونپڑی نما گھروں میں ان سردیوں کے لئے کوئی خاص تیاری نہ ہوتی ۔۔کوئی توشہ خرچہ جمع نہ کیا جاتا ۔۔کیونکہ سردیاں اتنی زوروں سے نہ آتیں تھیں ۔۔مستان جیسے لوگوں کا روز روز کا گزارہ تھا ۔۔واجبی کپڑے،پرانے جوتے۔۔۔نہ داستانے ،نہ گرم کوٹ، نہ چادر ۔۔۔اس بار سوختنی لکڑی بھی جمع نہ تھی ۔۔۔ہمسائے تھے کہ کچھ اسودہ حال کچھ واجبی سے ۔۔۔ان کو مستان کا خیال کبھی نہ آتا ۔۔۔دور کے تقاضوں نے حق ہمسائیگی ب بھلادئے تھے ۔۔۔نفسا نفسی تھی ۔۔فطرت کا کیا ہے ؟فطرت رنگ بدلتی ہے ۔۔مستان شریف تھا ۔حلیم تھا ۔۔توکل والا تھا ۔۔خودار تھا ۔۔کئی قدرتی آفات آئے ۔۔امدادی سامان آئے مگر اس کی رگ لالچ میں کبھی جنبش نہیں آئی۔۔اس کی حرص کی نگاہیں کبھی وا نہیں ہوئیں ۔۔اس کو ایک ’’تنکا ‘‘ بھی نہ ملا۔اور ’’نہ ملنے ‘‘ کا افسوس بھی اس کو نہ ہوا ۔۔وہ زندگی کی پچاس بہاریں اور خزان دیکھ چکے تھے ۔۔انھوں نے’’ برف باری ‘‘دیکھی تھی مگر برف کو اس سال کی طرح ’’ بھاری‘‘ کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔۲ جنوری سے برف باری کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔کچھ پیشنگوئیاں ہوئیں مگر مستان کا خیال خیا ل ہی رہا کہ برف باری ابھی تھمے گی ۔رات دنوں میں اور دن راتوں میں تبدیل ہوتے رہے ۔۔سارا دن برف پڑتی تو رات کے لئے امید باندھی جاتی کہ تھمے گی ۔۔رات ڈھلتی تو برف کی تہہ کی تہہ جمتی ۔۔پھر سارا دن اسی طرح برف باری ہوتی ۔۔برف کی تہیں جمتی رہتیں ۔۔مستان آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا اور کہتا ۔۔’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں بے شک اللہ گناہوں کو معاف کرتا ہے اور بے شک وہ غفور الرحیم ہے ۔‘‘طفیل کو آیت کا مفہوم تو نہ آتا لیکن اپنے آبو کے چہرے کی طمانیت کو محسوس کرتا ۔۔ابو ہر صبح پھٹی جرابیں اس کی ماں سے سلواتے پہنتے اور گھٹنوں تک چھڑاتے اور لکڑی سے بنی بیلچہ کندھے پہ اٹھا کے کچھی چھتوں کو صاف کرنے گھر کی چھت پہ چھڑتے ۔۔امی زیر لب برف باری تھمنے کی دعا کرتی رہتی ۔۔طفیل کو اپنے ابو کے اس کام پہ رشک آتا کہ کاش وہ بھی اپنے ابو کی طرح چھتوں سے برف ہٹانے جائے ۔۔امی روکتی مگر ابو اس کے چہرے پر پھیلی معصوم شکستہ مسکراہٹ دیکھ کر اس کی پیشانی چومتا کندھے پہ اٹھا کے اپنے ساتھ چھت پہ لے جاتا ۔۔وہ بڑے شوق سے ایک دو بار اپنا چھوٹا سا بیلچہ برف میں ڈالتا پھر تھک کر ابو کے پہلو میں کھڑے ابو کو برف ہٹا تے دیکھتا ۔۔برف باری زوروں پہ ہوتی ۔۔طفیل سردی سے ٹھٹھرتے تو ابو اس کو اٹھا کے پھر گھر میں لاتے ۔وہ اتشدان کے قریب دبکے بیٹھ جاتے ۔۔برف کی تہہ کی تہہ جمتی ۴ فٹ تک پہچ گئی ۔سب سہم سے گئے ۔اسودہ حال بھی ٹن کی چھتوں والے بھی ۔بڑے گھر والے بھی ،دکاندار بھی ، سرمایہ دار بھی ۔سب کے چہروں سے ہنسی غائب ہو گئی ۔۔
برف باری ’’برف بھاری‘‘ میں تبدیل ہوگئی ۔۔اب آسمان سے آتے برف کے گولے لوگوں کے سینوں میں گولے بن کے لگتے ۔۔مالک کائینات کا حکم ہے کون ٹال سکتا ہے ۔۔بے بس انساں اب مسجدوں کا رخ کرتا ہے ۔۔فریاد کرتا ہے طفیل جیسے کتنوں کے لئے واقعی برف باری ’’برف بھاری‘‘ میں تبدیل ہو گئی تھی ۔۔اب وہ گھر میں نہ سردی سے بچ سکتے تھے نہ بھوک پیاس سے ۔
فلاحی مملکت میں بظاہر فلاحی ادارے ہیں سرکاری بھی غیر سرکاری بھی ،،مشینریاں ہیں انتظامیہ ہے، عدلیہ ہے،اشرافیہ ہے ،لیڈر شب ہے ،سیاست ہے ، ملک میں اقتدار ہے اقتدار کے ناخدا ہیں ۔۔مگر طفیل جیسوں کے لئے برف بھی بھاری ہے ۔سیلاب بھی بھاری ہے زلزلہ بھی بھاری ہے ہر معمولی آفت بھاری ہے ۔۔امداد آتی ہے سامان آتے ہیں مگر جن کے ہاتھوں ’’تقسیم‘‘ہونے ہیں وہ پہلے ’’اپنا حصہ‘‘ لیتے ہیں پھر بندر بانٹ ہوتا ہے ۔۔انتظامیہ ’’اعلی انتظام ‘‘ کا راگ الاپتا ہے ۔۔پویس بے مثال ہے ۔۔سیاست کامیاب ہے ۔۔مگر نگری میں اندھیکار پھیلتا جاتا ہے ۔۔طفیل کا ابو جھونپڑی نما چھتوں برف ہٹاتے ہٹاتے تھک جاتا ہے ۔۔ماں عسرت سے گھل جاتی ہے طفیل کی افسردہ اکھیوں میں سوالات آآکے جمع ہو جاتے ہیں ۔۔ان سب سوالات کا خلاصہ ایک سوال ہے ۔۔’’کیا صرف میں محرومی کے لئے پیدا ہوا ہوں ؟‘‘۔۔اگر مجھ پہ برف ’’بھاری‘‘ ہے تو سب پہ کیوں نہیں ۔۔یہ برف ضرور پگھلے گی تو طفیل اس کی ماں اور سلمیٰ مستان کے ساتھ باہر نکلیں گے کیونکہ وقت ایک سا نہیں رہتا ۔۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔