داد بیدا د ……..واپسی کا سفر

…………..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ ……

2018 کا الیکشن قریب آنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے اپنے پروگرام ، اپنے منشور، اپنے نظریات اور اپنے سیاسی مقاصد سے واپسی کا یہ سفر بہت دلچسپ ہے جو سیاسی جماعت مخالفین کو کر پٹ کہتی تھی وہ ان لوگوں میں جیتنے والے گھوڑے تلاش کررہی ہے جس سیاسی جماعت نے مد مقابل کو نااہل قرار دینے کی مہم چلائی تھی وہ الیکشن جیتنے کے لئے اسی نا اہل کو اپنی پارٹی میں لانے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہی ہے جس پارٹی کے کوئی منشور اور پروگرام نہیں رہا وہ الیکشن جیتنے کے لئے ایسے اُمید واروں کی تلاش میں ہے جوپارٹی کو پسند نہیں کرتے مگر پیسہ خرچ کر نے کی استطاعت رکھتے ہیں کراچی میں ایم کیو ایم کا منشور بکھر گیا ہے پروگرام درہم برہم ہو گیا ہے الطاف حسین ڈاکٹر فاروق ستار ا ور مصطفی کمال اپنے ندیم نصرت کو لیکر سر جوڑ ے اس فکر میں ہیں کہ کس طرح الیکشن جیتنے والے تاجروں اور جاگیرداروں کی خدمات حاصل کریں بھتہ کلچر کو پھر سے زندہ کریں تینوں گروپوں میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے اند رون خانہ کوئی اختلاف نہیں مہاجر قومیت ، مہاجر صوبہ اور مہاجر حکومت پران کا پکا اتفاق ہے پاکستان پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیتہ العلمائے اسلام کو بھی جیتنے والے گھوڑوں کی تلاش ہے مسلم لیگ (ن) کو بھی وڈیروں اور جاگیر داروں کے نئے چہر ے درکار ہیں قومی وطن پارٹی ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف بھی نئے چہروں کو ڈھونڈ نے میں لگی ہوئی ہے جماعت اسلامی نے صادق اور امین والی شرط ختم کر دی ہے پاکستان تحریک انصاف نے اثاثے دکھانے کی شرط سے تو بہ کر لیا ہے کرپٹ بھی قبول ہے بشر طیکہ الیکشن میں 50 یا 60 کروڑ روپے لگا سکتا ہوایک تاجر کے لئے یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے وہ ڈھائی سال اسمبلی میں رہ کر اس سے دس گنا زیادہ کما کر لاتا ہے 50 کروڑ سے 5 ارب بنا نا ان کے بائیں ہاتھ کی کچی انگلی کا کھیل ہے اور یہ کھیل ہم آئے روز دیکھتے ہیں ہمارے دوست پروفیسر شمسالنظر فاطمی نے سیاسی جماعتوں کی سہولت کے لئے ایک اشتہار کا مسودہ تیار کیا ہے جو مختصر ہو نے کے باوجود بہت جامع ہے اشتہار کا متن یہ ہے ’’ 2018 ؁ء کے الیکشن سرپر ہیں ‘‘ ہماری پارٹی نے اس پر غور کیا ہے کہ ہم اپنے موجود ہ کارکنوں اور ہمد ردوں کی ہمدردی سے محروم ہوچکے ہیں اس لئے 2018 ؁ء کے لئے ہمیں نئے چہروں کی اشد ضرورت ہے نئے چہروں کو درج ذیل شرائط پر پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا پارٹی میں شامل ہوکرٹکٹ مانگنے والے کے پاس کم از کم 50 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی ہونی چاہیے پارٹی منشور کے ساتھ اتفاق کرنے کی کوئی شرط نہیں پارٹی اس بات کی ضمانت دیگی کہ انٹی کرپشن ، نیب اور احتساب کمیشن کی آزما ئشوں سے موصوف یا موصوفہ کو ہر حال میں تحفظ دیا جائے گا خواہشمند خواتین و حضرات رابطہ کریں تاہم خود چل کر اُن کے پاس جائینگے (و ما علینا الا البلا غ) ایک اور اشتہار بھی زیر غور ہے اشتہار کا عنوان بڑا دلچسپ اور انوکھا ہے اس پر لکھا ہے ’’ ضرورت اُمید وار‘‘عنوان کے نیچے درج ہے ایک مشہور سیاسی جماعت کو 2018 ؁ء کے انتخابات کے لئے اُمید وار کی ضرورت ہے اُمید وار کی اہلیت کا معیار اس کی مالی حیثیت کے مطابق طے کیا جائے گا مستحکم مالی حیثیت رکھنے والے اُمیدوار رجو ع کریں پارٹی منشور ، اصول ، قواعد و ضوابط وغیر ہ پر یقین رکھنے والے زحمت نہ کریں ہاو س فل ہے مزید گنجائش نہیں ایسے اشتہارات سے متاثر ہو کر ہو اکا رُخ دیکھتے ہوئے ضمیر کارُخ بدلنے والے اُمیدوار وں نے بھی ایک اشتہار کا متن تیار کیا ہے اخبارات کے کلا سیفا ئڈ والے حصے میں جہاں تبدیلی نام اور اعلان گمشدگی کا اشتہار آتا تھا وہاں یہ اشتہار بھی آئے گا ’’ اُمید وار برائے فروخت ‘‘ عنوان کے نیچے لکھا ہوگا 2018 ؁ء کے الیکشن کا اُمیدوار ہمارے شو روم میں گاہک کی تلاش میں برجمان ہیں اُمیدوار اپنے انتخابی اخراجات خو د برداشت کریگا پارٹی فنڈ میں بھی چند ہ جمع کریگا نظریہ منشور اور قواعد و ضوابط کی کوئی قید نہیں اُمید وار نے اس سے پہلے 10 بار پارٹی تبدیلی کی ہے گیارھویں بار پارٹی تبدیلی کر نا اُن کے لئے کوئی مسئلہ نہیں خو ا ہش مند پارٹیاں پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر رجو ع کریں پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی واپسی کا سفر بہت دلچسپ مگر افسوسناک ہے جس پارٹی نے عمر بھر اصولوں کی پاسداری کی ،نظریے کی سیاست کا دم بھر نے میں وقت پیسہ اور محنت صرف کیا اُس پارٹی کو اب ایسے اُمید وار کی ضرورت ہے جو کسی بھی قیمت پر الیکشن جیت کر دکھا ئے جس پارٹی نے 5 سال حکومت کی اُس پارٹی کو اپنی صف میں انتخابات جیتنے کے لئے کوئی اُمیدوار نظر نہیںآتا وہ الیکشن میں باہر سے اُمیدوار لاکر چند سیٹوں پر کامیابی و کامرانی کے جھنڈ ے گاڑنا چاہتی ہے یہ اپنے نظر یے سے ، اپنے منشور سے ، اپنے پروگرام سے با قاعد ہ واپسی ہے اور واپسی کے اس سفر کو پسپائی کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ ترقی ، مضبو طی اور مقبولیت کا نام دیا جاتا ہے پاکستان تحریک انصاف نے گذشتہ الیکشن میں اس کا نہایت کا میاب کیا تھا سیٹ جیتنے کے لئے پرویز خٹک کو نازک وقت پر ٹکٹ دیا گیا انہوں نے نہ صرف اپنی سیٹ جیت کر دکھا یا بلکہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کا عہد ہ بھی اُسی کمال اور مہارت کے ساتھ حاصل کیا اگلے الیکشن میں اگر اس طرح کی حکمت عملی اختیار کی گئی تو پی ٹی آئی کا پلڑا دوسروں پر بھاری ہوگا
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ!
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نک

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔