کہیں ،کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی بات تو نہیں؟

کہیں ،کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی بات تو نہیں؟

………….قاری فدا محمد…………

گولین کے مقام تعمیر ہونے والے 2 میگاواٹ ہائڈرل پاور منصوبے کی تکیل کے آخری مراحل میں کوہ  اور ٹاؤن کے عوام کے درمیاں  تنازعہ کھڑا ہوا۔ بات بیان بازی سے آگے بڑھ کر روڈ کی بندش اور کھمبا اکھاڑنے کی دھکمی تک جاپہنچی۔ کرم ہے رب کریم کا کہ دونوں طرف سے بڑھکتی آگ اور لہکتے شعلے” شدید “برفباری کے ہاتھوں ٹھنڈے پڑ گئے اور ساتھ ہی برف باری سے جھکتے کھمبے اور زمین بوس لائینیں ٹھیکدار صاحب کے کمال ہنر کی دہائیاں بھی دینے لگیں،  (گولین کے اندر کھمبوں  اورٹرانسمٹیشن لائینوں  کی تنصیب میں جس غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے ، وہ الگ سے فریاد کا متقاضی ہے، اس لیے سردست ہم بجلی گھر کا رونا رونے پر اکتفا کریں گے)   یوں نمائشی طور پر پیدا شدہ وہ چپقلش برفباری سے ہمیشہ کے لیے منجمد ہو کر رہ گئی۔   ہم خیر سے اس چپقلش کو بہت زیادہ سیریز لینے لگے تھے، مگر اس راز سے  آگاہی  تب ہوئی جب “برف پگلنے” کے بعد جھکتے کھمبوں کی اقامت اور گرتی لائینوں  کی مرمت کے بعد بجلی کی  ترسیل کا مرحلہ آیا۔  سالوں سے بجلی کو ترسے ہوئے عوام  اور غصے سے بھپرے ہوئے ٹاؤن کے نوجوانوں کے جذبات کو  بچوں کو لوری دیکر سلانے کے مانند ،اس بجلی گھر کا مژدہ سنا سنا کر ٹھنڈا کیا جاتا رہا  ۔   لوگوں کے فریاد کرنے پرمژدہ تو یہ سنایا جاتا رہا کہ  “2 میگاواٹ ہے بھائی!  ٹاؤن کے سارے مسائل حل ہوا چاہتے ہیں”  اور لوگ اس نعمت غیر مُتَرقَّبَہ  کے “عنقریب” ہاتھ لگنے کی خوشی میں واپڈا والوں کا ہر ستم بخوشی جھیلتے رہے۔ جب ہمیں اس  کے نِکا ہونے کی خبر موصول ہوئی تو اپنے تئیں کچھ تحقیق کی سوجھی،  معلوم ہوا کہ “سامبو” والوں کے ڈیٹا کلیکشن کے مطابق اِ س وقت ( یعنی ماہ مارچ میں) گولین گول کا پانی اتنا نکما بھی نہیں ہے کہ مذکورہ مقام پر 2 میگاواٹ بجلی دینے سے قاصر ہو۔ اگر یہ بات درست ہے ، لگ تو درست ہی رہی ہے، تو بلند و بانگ دعویٰ کرنے والی تنظیم ایس آر ایس پی  کے ہاتھوں تعمیر ہونے والا بجلی گھر  اِس وقت محض 600 کیوی  تک  محدود کیوں ہے؟    اصل بات یہ ہے کہ فی الحال پانی کا بہانہ کرکے نقص چھپایا  جارہا ہے ،  اگر ان کا عذر ، عذر لنگ ثابت نہ ہوا ، اور وقت کے ساتھ ساتھ پانی میں اضافہ ہونے کی صورت میں  بجلی گھر سے موعودہ مقدار کے مطابق بجلی   برآمد ہوئی تو (بشرط زیست) ہم  اسی طرح کے ایک مضمون کے ذریعے خداوندان ِایس آر ایس پی سے معذرت کے ساتھ ان کے حق میں  تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسانے  میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ اور اگر (خدا نہ کرے ) مذکورہ بجلی گھر موعودہ  (فل دو میگاواٹ)بجلی فراہم کرنے سے قاصر رہا ،تو اُس وقت ٹاؤان کے لوگ کسی بہانے اور عذر کو قبول کرنے  کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اِس معاملے میں “پاور کمیٹی”  کو بھی چوکنا ، بیدار   اور حالات سے مکمل باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان کے دعویٰ کے مطابق یہ منصوبہ  انہی کا مرہون منت اور انہی کی کاوشوں کے نتیجے میں تعمیر ہونے چلا تھا۔ لہذا  اِس وقت پانی کی قلت کے عذر کو آنکھیں بند کرکے مان لینے کے بجائے متعلقہ ماہرین کی معاونت سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ کسی ایسی ویسی بات کی صورت میں معاملے کو بروقت  سنبھالنے کے ساتھ ذمہ داروں سے جواب طلبی کی جاسکے۔

بظاہر تو یوںمحسوس ہو رہا ہے کہ   “کوہ اور ٹاؤن ” کا تنازعہ دراصل اِس میں موجود نقص کو چھپانے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف لے جانے کی نیت سے  پیدا کیا گیا تھا اور ہم اس کی موجودہ نکمی حالت کو دیکھ کر ہی اس “سوئے ظن ” میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمارا اندازہ غلط ہو اور وقت آنے اور پانی کے بھر آنے پر اس کی حالت بہتر ہو تاکہ عرصہ سے بجلی کی نعمت سے محروم عوام کی مشکل دور اور ٹاؤں میں پھیلا اندھیرا کافور ہوجائے۔  بصورت دیگر ایس آر ایس پی پر لوگوں کا اعتماد ختم ہو کر جائے گا اور لوگوں کو اس تنظیم کے خلاف میدان میں آنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔