داد بیداد……سول ایوارڈ کا اعزاز

………….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ……..

یوم پاکستان کے موقع پر صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے جن ممتاز شخصیات کو سول ایوارڈ کے اعزازات سے نوازا گیا ان میں اردو ادب کی دنیا میں نام پانے والے ادیب، شاعراور دانشور مدیر سخن سرائے ناصر علی سید کا نام بھی شامل ہے۔ آپ کو تمغہ امتیاز دیا گیاگورنر ہاؤس پشاور میں منعقدہ پرُ وقار تقریب میں آپ نے یہ اعزاز وصول کیا جس سال نامور مصنف ممتاز مفتی کو سول ایوارڈ ملا اس سال تجزیہ نگاروں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ممتاز مفتی کو سول ایوارڈ دے کر حکومت نے سول ایوارڈ کی عزت و تکریم میں اضافہ کیا ہے اس طرح ناصر علی سید کا نام آنے کے بعد تمغہ امتیاز کو اعزاز ملا ہے اور بلاشبہ یہ تمغہ امتیاز کا اعزاز ہے اور اس پر تمغہ امتیاز کو فخر ہوگا اردو ادب کی دنیا بھی جرمن ورلڈ ’’اورفرانکوفونورلڈ‘‘ کی طرح ایک الگ دنیا ہے جس طرح جرمنوں کو اپنی زبان و ادب کے ساتھ اپنے ادیبوں اور شاعروں پرفخر ہے گوئٹے پر فخر ہے جس طرح فرانس کو اپنے ادیبوں پر فخر ہے موپساں کا نام فخر سے لیا جاتا ہے اس طرح اردو ادب کی دنیا میں بھی نامور لوگ گزرے ہیں میرو غالب ،انیس و دبیر، اقبال اور فیض سے لیکر فراز اور ناصر علی سید تک اردو ادب کے ستاروں کی لمبی قطار ہے جو پاکستان ، بھارت ، مڈل ایسٹ ، آسٹریلیا ، امریکہ ، یورپ اور مشرق بعید تک پھیلی ہوئی ہے100سال پہلے ذرائع اور وسائل ایسے نہیں تھے کہ اردو ادب کی دنیا کے نامور لوگ آسانی سے اکھٹے ہوسکیں موجودہ صدی ذرائع ابلاغ کی صدی ہے ذرائع آمدورفت بھی با آسانی دستیاب ہیں اس لئے پشاور کا ادیب اور شاعر دہلی اور اگرہ سے لیکر ڈینور اور ٹولیڈو تک ایک جست میں پہنچ جاتا ہے اور ناصر علی سید کے مخصوص حالات میں یہ ایک جست سے بھی کم کی بات ہے عبدالکافی ادیب کہا کرتے تھے کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے بارڈر پپلیسٹی ونگ میں ملازمت کے دوران ناصر علی سید نے کچھ عرصہ اسلام آباد میں گزارا ایم بلاک میں واقع سکرٹریٹ اور زیروپوئنٹ میں وزارت اطلاعات کے ذیلی دفتر میں کوئی بھی صحافی، ادیب، شاعر اور افسر یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ناصر علی سید اکوڑہ کے خاندان سادات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی مادری زبان پشتو ہے وہ کہتے تھے کہ ناصر علی سید یا تو دہلی اور لکھنو سے ہجرت کرکے آنے والوں میں سے ہونگے یا کم از کم لاہور اور کراچی کے باسی تو ضرور ہونگے ان کی زبان اتنی شستہ ، ان کی تحریر اس قدر نستعلیق اور ان کی شاعری اتنی پختہ ہے اس عمر میں اکوڑہ کے چھوٹے سے گاؤں میں پشتو بولنے والا اس قدر استعداد کیسے پیدا کرسکتا ہے؟ عبدالکافی ادیب کہتے تھے کہ میں لوگوں کو یہ سمجھاتے تھک گیاکہ ناصر علی سید صوبہ سرحد کا رہنے والا ہے اکوڑہ ان کا جنم بھومی ہے اور پشتو ان کی مادری زبان ہے وزارت اطلاعات کے بارڈر پبلیسٹی ارگنائزیشن میں اعجاز احمد زاہد ، عبدالکافی ادیب اور یوسف شہزاد نے ریٹائرمنٹ تک ملازمت کی ناصر علی سید ہائرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے، جمشید خٹک نے سی ایس ایس کرکے کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ کو جوائن کیا ان کا تعلق اکوڑہ کے نواحی گاؤں شیدو سے تھا عالمزیب خٹک اور محمد اسلام ارمانی بھی ہائرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے حسن اتفاق ہے بارڈر پبلیسٹی ارگنائزیشن کے ان افسران کو قبائلی علاقوں کے مجلہ ’’کاروان‘‘ کی ادارت سونپی گئی تھی اور ہر قبائلی ایجنسی کے ہیڈ کو ارٹر سے الگ کاروان نکلتا تھا ناصر علی سید خیبر ایجنسی کے ایڈیٹر کاروان تھے پھر یوں ہوا کہ یہ لوگ ایک ایک ہو کرچلے گئے کاروان بچھڑ گیا، پھر کاروان کے نام سے شائع ہونے والے مجلے بھی ڈاون سائزنگ کی زد میں آگئے رہے نام اللہ کا 1980ء کا عشرہ پشاور کی ادبی فضا میں جہاں فارغ بخاری،رضا ہمدانی ، شررنعمانی ، شوکت واسطی، اشرف بخاری، مسعود انورشفقی ، خاطر غزنوی، تاج سعید اور ان کے ہم عصرادیبوں کا راج تھا ۔ وہاں ناصر علی سید اور ان کے دوستوں نے ینگ تھنکرز فورم کی بنیاد رکھی تھی اس کے اجلاس کبھی پیراڈائز اور کبھی پشاور کلب میں ہوتے تھے جہاں یوسف رجا چشتی میزبانی کے فرائض انجام دیتے تھے حلقہ ارباب ذوق، رائٹرز گلڈاور انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں بھی ناصر علی سید چھا جاتے تھے ان کے دوستوں میں عزیز اعجاز، نذیر تبسم ، مشتاق شباب، فقیر حسین ساحراور اعجاز نیازی نمایاں تھے پھر سنڈیکیٹ آف رائٹرز کا دور آیا ناصر علی سید نے ہر دور میں خوب رنگ جمایا افسانہ نگاری، کالم نگاری، ڈرامہ نگاری اور شاعری سے لیکر کمپیرنگ تک ہر شعبے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ان کے دوست پاکستان کی ممتاز شخصیت میجر محمد عامرکہتے ہیں کہ ناصر علی سید کا نام ایسا نام ہے جو ہمیشہ پورا لیا جاتا ہے کبھی ادھا نہیں لیا جاتا آپ جہاں لاہور، اسلام آباد اور کراچی کی ادبی مجلسوں میں امجد اسلام امجد ، آصف فرّخی، مستنصر حسین تارڑ، عطاء الحق قاسمی اور دوسرے نامور ادیبوں کے ساتھ حاضر جوابی،لطیفہ گوئی۔بذلہ سنجی اور برجستہ اشعار سے محفل کو لوٹ لیتے ہیں تو پشاور ، بھوربن اور باڑہ گلی کے سیمینار ہالوں میں دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھ کر ڈرامہ ، یا افسانہ لکھ رہے ہوتے ہیں ایک دوست نے پوچھا’’آپ سیمینار کے اندربیٹھ کر تخلیقی کام کسطرح کرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’یہی تو تخلیقی کام کا موقع ہوتا ہے‘‘ جو شخص 600کے ہجوم میں اکیلے بیٹھ کر تخلیقی کام کرسکتا ہے وہ ضرور جارج برنارڈشا، دستووسکی اور موپسان سے بڑا دانشور ہوگا۔ ناصر علی سید کو ملنے والا سول ایوراڈ پشاور کے لئے بھی ایک سرمایہ افتخار ہے اور اس ایوارڈ کا ناصر علی سید جیسے بڑے ادیب اور دانشور کو ملنا ایوارڈ کے لئے بھی اعزاز ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔