وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی طرف سے گریڈ 17 اور اُ س سے اوپر کے افسران کی تنخواہوں میں اضافے کاعندیہ

پشاور(چترال ایکسپریس)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے گریڈ 17 اور اُ س سے اوپر کے افسران کی تنخواہوں میں اضافے کاعندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنے صوبے کی مالی صحت کا اندازہ لگانے کے بعد سرکاری افسران کی تنخواہوں میں مناسب اضافے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ پورے اطمینان قلب کے ساتھ کام کرکے ہمارے بنائے ہوئے تبدیل شدہ سسٹم اور تبدیل شدہ اداروں کو مزید فعال اور عوامی خواہشات کا تابع بنا سکیں۔ ہم نے وفاق سے صوبے کے آئینی حقوق حاصل کئے کیونکہ ہمیں صوبے کے آئینی حقوق کا ادراک تھا ۔اگر وفاق نے سی پیک میں صوبے کیلئے مشکلات کھڑی نہ کیں تو ہم اپنی تیاری کے بل بوتے پر توقعات سے زیادہ سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہوں گے ۔فاٹا کے انضمام پر ہمارا موقف واضح ہے ۔ہم سالوں کی بجائے ہفتوں میں اس انضمام کے حق میں ہیں ۔ ہمارا موقف صوبے میں رائج قوانین بشمول بلدیاتی نظام اور پولیس کو قبائلی علاقوں میں توسیع ہے ۔ہم یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے طبقاتی اور امیر و غریب کے درمیان فرق ختم کریں گے ۔وہ پیر کے روز وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں 106ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء کے وفد سے اپنے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری عابد سعید، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعظم خان، سیکرٹری محکمہ داخلہ شکیل قادر، سیکرٹری پی اینڈ ڈی شہاب علی شاہ و دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اُن کی حکومت نے صوبے کے عوام کو ایک شفاف نظام دیا ۔اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کرکے ہم نے عوام کو ریلیف دینے کا عمل سہل بنا دیا ۔ صوبے میں ترقیاتی عمل کو شفاف بنایا،رشوت کا خاتمہ کیا اور ہر علاقے کو ترقی کیلئے منصفانہ حصہ دیا تاہم اداروں پر کھڑے اس سسٹم کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے چلانے والوں کو خدمات کا مناسب صلہ بھی ملے اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کم تنخواہ میں وہ اپنے کام سے مکمل طور پر انصاف نہیں کرسکتے ۔آئندہ سال ہم ان کی تنخواہوں میں اضافہ کا سوچ رہے ہیں۔ہمارے میگا پراجیکٹس تعلیم، صحت ، کرپشن کا خاتمہ ، پٹوار سسٹم اور تیز تر انصاف کی فراہمی ہے ۔ہم نے شفاف حکمرانی کے نئے اسلوب متعارف کرائے جس کو عوام کی پذیرائی ملی اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر صوبے میں دوبارہ اقتدار میں آ ئیں گے ۔وزیراعلیٰ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کی حکومت نے وفاق کے ذمے واجب الادا پن بجلی کی مد میں 100 ارب روپے کے بقایا جا ت منوائے اور انکی وصولی کا طریقہ کار وضع کیا ۔اس مد میں منجمد شدہ 6 ارب روپے کو 18 ارب روپے تک بڑھایا ۔ صوبے کی اضافی گیس سے بجلی پیدا کرکے حطار ، رشکئی اور ڈی آئی خان کے صنعتی زونز میں صنعتکاری کے فروغ کیلئے فراہم کرنے کا حق بھی حاصل کیا۔سی پیک کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ ابتدائی دو سال صوبے کو اندھیرے میں رکھا گیا جبکہ دوسری طرف کوئلے سے بجلی پیدا کرنے اور دیگر بڑی بڑی سکیموں کا افتتاح ہو رہا تھا ہم نے شور مچایا جس کی وجہ سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی مغربی روٹ منظور کرایا اور کچھ ہی مہینوں میں صوبے میں پائیدار صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی ۔ چائنا سمیت بین الاقوامی سرمایہ کار صوبے میں سرمایہ کاری کیلئے آرہے ہیں۔ ہماری حکومت 16 اور 17 تاریخ کو بیجنگ میں روڈ شو کرنے جارہی ہے جس میں تقریباً100 سے زیادہ پراجیکٹس مارکیٹ کئے جائیں گے ۔ہم وایبل پراجیکٹس صوبے کیلئے بنا چکے ہیں اور اس میں سرمایہ کاری ہمارا ہدف ہے ۔ہم قرضے لیکر صوبے کو ڈبونا نہیں چاہتے اور نہ ملکی قرضوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے پراجیکٹس مارکیٹ کریں گے جو منافع بخش ہوں اور اگر وفاق نے ہمارے راستے نہ روکے تو ہم صوبے میں توقعات سے زیادہ سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ فاٹاکے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق ہمارا موقف واضح ہے ہم فاٹا کو خیبرپختونخو اکا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے کہ اس کیلئے پورے پانچ سال کا لمبا چوڑا پلان بنایا جائے ۔فاٹا کے لوگ ہمارے قوانین اور سسٹم سے بخوبی واقف ہیں ۔ فاٹا میں نئے تجربات کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے نہ اس سلسلے میں کسی طرف سے شرارت ہونی چاہیئے ۔ہمارے صوبے کے افسران فاٹا میں تعینات ہیں اور ڈیلیور کر رہے ہیں۔ہماری پولیس کا سسٹم بھی وہاں رائج ہو سکتا ہے ۔ہم نے 2018 الیکشن میں فاٹا کے ممبران کو صوبے میں نمائندگی دینے کی سفارش کی تھی نمائندگی سے تو اتفاق کیا گیا لیکن اختیار گورنر کو دیا گیا نیز یہ کہ سیکرٹریٹ گورنر کے ماتحت ہو گا ۔ ترقیاتی عمل بھی ایم این ایز کے ذریعے جاری رہے گا جس سے مزید گھمبیر مسائل جنم لیں گے۔ اس پر میں نے اپیکس کمیٹی میں آرمی چیف کے سامنے اعتراض اُٹھایا اور انہوں نے پرائم منسٹر سے بات کرنے کا وعدہ کیا۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب ایف سی والے اپنے 10 ہزار اہلکار پولیسنگ کیلئے فاٹا کو دے سکتے ہیں تو پھر اس میں کون سی رکاوٹ حائل ہے ۔ ہم نے سوال اُٹھایا ہے کہ 2018 ء کے انتخابات سے فاٹا کے ارکان خیبرپختونخوا اسمبلی کا حصہ تو بن جائیں گے مگرفاٹا کے یہ ارکان اپنے لئے قانون سازی نہیں کرسکیں گے جبکہ وزیراعلیٰ کا اختیار بھی ان علاقوں تک نہیں ہو گا دوسری طرف فاٹا کی مالی اور انتظامی اختیارات سمیت فاٹا میں افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار وفاق کے پاس ہو گا جبکہ وزیراعلیٰ کے پاس کسی قسم کا اختیار نہیں ہو گا جو فاٹا میں مزید بد انتظامی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ اور فاٹا سے نومنتخب ارکان بے اختیار ہوں گے تو پھر صوبائی اسمبلی میں محض فاٹا کو نمائندگی دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔صوبے میں تبدیلی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم نے بہتر نظام تعلیم کے ذریعے طبقاتی اور امیر و غریب کے فرق کو مٹانے کیلئے یکساں نظام تعلیم کی طرف پیش قدمی کی ۔ صوبے کے ابتدائی تعلیم میں انگریزی متعارف کرائی۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کہ دینی مدار س میں اصلاحات کیلئے ہمارے اُٹھنے والے اقداما ت کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اس پر تنقید کی گئی ۔جبکہ ہماری کوشش پورے معاشرے کیلئے یکساں تعلیمی میدان فراہم کرنا ہے تاکہ ہر کوئی اپنی قابلیت کی بنیاد پر مقابلے کی دوڑ میں اپنے لئے مقام بنائے ۔کیونکہ ہم نے قوم بنانی ہے اور قوم بنانے کیلئے سب کو مقابلے کی یکساں فضاء مہیا کرنا ضروری ہے۔وزیراعلیٰ نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ ہماری حکومت کی ریکارڈ قانون سازی اور اصلاحات کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو رہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ پولیس ریفارمز کے ذریعے ہم نے عوام کو فرسودہ تھانہ کلچر سے نجات دلائی ہم نے صرف پولیس سے ہر قسم کی مداخلت کا خاتمہ کیا جس سے پولیس ایک فورس بن کر اُبھری اور اب نہ صرف پولیس فورس عوام کی کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرچکی ہے بلکہ ترقیافتہ اقوام کی پولیس سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ اطلاعات تک رسائی ، خدمات کی فراہمی اور کانفلکٹ آف انٹرسٹ سمیت دیگر قوانین کے ذریعے لوگوں کو کرپشن کے خلاف منظم کیا گیا ۔ مقام شکر ہے کہ اب صوبے میں امن و امان کی بہتری اور اداروں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ عوام کا معیار زندگی اور معاشی حالات بھی بہتر ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی کی بدولت نہ صرف نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں بلکہ ان کا عوامی سطح پر اعتراف بھی ہونا شروع ہو چکا ہے۔ ہم نے بر سر اقتدارّ نے کے بعد سٹیٹس کو اور سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر فیصلوں کا عمل جاری رکھنے کی بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پر بعض تلخ فیصلے بھی کئے اور ان کے نتائج بھی حوصلہ افزاء رہے۔وزیر اعلیٰ نے اعتراف کیا کہ تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھانے میں ہمیں حد درجہ رکاوٹوں کا سامنا رہا مگر ہمارا عزم ان رکاوٹوں سے کہیں زیادہ پختہ ہے۔ماضی میں عوام مسائل کے حل کے لئے اپنے نمائندے چنتے مگر انکے اہداف اور مقاصد اور تھے البتہ ہم نے عوام کو سیاسی آزادی دلا کر انہیں فرسودہ نظام کے چنگل سے چھٹکارا دلایاہے اور نظام کو ایسا بنا دیا کہ عوام کے مسائل خود بخود حل ہوں اور انہیں افراد کا محتاج نہ بننا پڑے۔پرویز خٹک نے کہا کہ صوبے کی سیکورٹی کی صورتحال مثالی بنا دی گئی ہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں خیبر پختونخوا بنیادی اہمیت رکھتا ہے جس کا وفاق کو بھی ادراک ہونا چاہیئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔