مولانا خلیق الزمان ایک قانون پسند شہری

…………..کریم اللہ……….

جہاں ہمارا معاشرہ عدم برداشت اورانتہا پسندی کا شکار ہے وہیں جید علمائے کرام اس انتہا پسندی کو روکنے کے لئے موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا کوئی واقعہ رونما ہوجاتے ہیں ،توعلماءسمیت معاشرے کے اکثر لوگ اس واقعے کی مذمت کے بجائے اگر مگر لیکن چونکہ چنانچہ جیسے الفاظ سے ان کے لئے جوازتراشتے ہیں۔ جب چند روزقبل مردان میں عبدالوالی خان یونیورسٹی کےطالبعلم مشعال خان کوانتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا تو علاقے کے امام مسجد نے مشعال خان کا نماز جنازہ پڑھانے سےانکار کیا بلکہ لوگوں کو ان کے نماز جنازے میں شرکت سے بھی منع کیا اس کے بعد علماءپرتابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے رجعت پسندوں نے مشعال قتل کیس کو توہین رسالت کا نام دینے کی بھی کوشش کی، لیکن عمران خان کے دلیرانہ اقدام اور پھر کراچی کے جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیمی نے اس واقعے کی پرزور مذمت کی تو اس کے بعد علماءکی جانب سے مشعال کے بہیمانہ قتل کی مذمت کا سلسلہ شروع ہوا۔پھرموقع کی تاک میں بیٹھے سیاست دانوں بالخصوص وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دختر نیک اختر مریم نواز کو بھی دو دن بعد ٹوئٹ کرکے اس واقعہ کے مذمت کی توفیق ہوئی ۔سچ بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب کے دلیرانہ فیصلے اور مفتی نعیمی کے بیانات نے انتہا پسندوں کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔ 21اپریل 2017ءکو شاہی مسجد چترال میں ایسا ہی ایک ناخوشگوارواقعہ رونما ہوا اطلاعات کے مطابق اپر چترال کے ایک گاﺅں ریچ سے تعلق رکھنے والے پاگل شخص نے جمعہ کی نماز کے بعد ممبر پر چڑھ کر نبوت کادعویٰ کیا۔پھر کیا تھا سارے نمازی مشتعل ہوگئے اوراس شخص کو مارنے کی کوشش کی،تو شاہی مسجد کے خطیب مولانا خلیق الزمان (جو اس شخص کی ذہنی حالت کو بھانپ گئے تھے) آگے بڑھ کر ہجوم کوروکا اوراس پاگل شخص کو پولیس کےحوالےکردیا۔ نماز کے بعد نوجوانوں کا ایک ہجوم نعرہ لگاتا ہوا پولیس اسٹیشن پہنچ گیا اور پاگل کو جلد ازجلد ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اس دوران تھانے پر دھاوا بول دیا تاکہ اس گستاخ کو پکڑ کر اس کا سر قلم کیا جاسکے۔ پولیس کی بھرپور مذاحمت کی وجہ سے ہجوم تھانے میں داخل نہ ہوسکے۔ آپ گزشتہ پچیس برسوں سے شاہی مسجد چترال میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اس سے قبل یہ عہدہ ان کے والد محترم جناب مولانا صاحب الزمان کے پاس تھا۔ انہوں نے تقریبا چالیس برسوں تک شاہی مسجد چترال میں خطیب کا فریضہ نبھا چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ خاندان گزشتہ ساڑھے چھ دھائیوں سے امامت کے فرائض انجام دیتے آئے ہیں۔مولانا خلیق الزمان نے جب قانون کو اپنے ہاتھ لینے کی بجائے مجرم کو قانون کے حوالے کیا تواس کا اجران کی گاڑی کو جلا کر دیا گیا کہا یہ جارہاہے کہ ان کی جان کوبھی خطرہ لاحق ہے ۔ سوشل میڈیا میں چترال کے بعض اہم شخصیات نے مطالبہ کیا ہے کہ مولانا کی بہادری کے عوض ان کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا آزالہ کیا جائے ۔مولانا خلیق الزمان دیگرعلمائے کرام کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ نے نہ صرف اپنے عہدے کا لاج رکھا بلکہ آپ کی قانون پسندی نے بین الاقوامی برادری میں خود ان کااور پوری چترال کا ایک بہترین امیج سامنے لایا۔خداناخواستہ ہجوم کے ہاتھوں اس پاگل شخص کا قتل ہوتا تو اولین فرصت میں انگلیاں خطیب صاحب کی جانب اٹھتی ۔ان کے خلاف تفتیش کی جاتی اور بہت ممکن تھا کہ انہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی سز ا ہوتی ۔ لیکن جو لوگ کئی دن گزرنے کے بعد بھی مولانا خلیق الزمان کو معاف کرنے کو تیار نہیں انہیں اس سارے عمل کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد چترال کی فضاءمیں تشدد کے گہرے بادل منڈلانے لگے تو حالات کو بھانپتے ہوتے چترال سے تعلق رکھنے والے نامور علمائ، مذہبی جماعتوں کے قائدین، لکھاریوں اور سماجی کارکن باہر نکلے اور پاگل شخص کی اس حرکت کی مذمت کے علاوہ مشتعل افراد کی لاقانونیت کو بھی ناپسند کیا، یوں چند افراد کی جانب سے امن و امان کو خراب کرنے کی جو کوشش ہوئی تھی ان کو ختم کرنے میں کامیابی ملی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار توسوشل میڈیا کارہا جسےہرجانب کاونٹر نیریٹیو کےطور پراستعمال کیا گیا۔ اس لحاظ سے سارے چترالی خراج تحسین کے مستحق ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق اس اشتعال انگیزی کو ہوا دینے میں اکثرغیر مقامی افراد بالخصوس چترال بازار میں کاروبار کرنے والے پٹھان(باجوڑی و مہمندی) ملوث تھے جنہوں نے لوگوں کو اشتعال دلاتے رہے۔ اگر اس میں واقعی صداقت ہے تو پھر چترال کی مستقبل کے حوالے سے ہمیں ضرور فکر مند ہونا چاہئے۔ کیونکہ غیر مقامی کاروباری افراد کا جو ریلا چترال کی جانب روان ہے کہیں یہ سیلاب سب کچھ خس وخاشاک کی طرح بہا کے نہ لے جائے، اور ہم صرف تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ چترال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، قانون سازوں بالخصوص ضلع کونسل اور دونوں تحصیل کونسلوں کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا بصورت دیگرچترال کا پرامن معاشرہ بیرونی عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہوکر تباہ بھی ہوسکتا ہے۔

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔