دھڑکنوں کی زبان…..’’لیکن‘‘

…………….محمد جاوید حیات ………….

افلاطون نے کہا ۔۔۔’’ایک انسان کے ساتھ ساری زندگی گذارو گے ۔۔لیکن اجنبی ہی رہو گے ۔۔ایک انسان ایک لمحے کے لئے تمہاری نظروں کے سامنے آجائے گا مگر سیدھا دل میں اتر جائے گا ‘‘۔۔۔سقراط کا فلسفہ اس سے مختلف رہا ۔۔ان دونوں میں اس سلسلے میں زمین و آسمان کا فرق تھا ۔۔سقراط کی گھر والی بہت جھگڑالو اور ترش مز اج تھی ۔۔سقراط کہتا ہے کہ’’ اس’’بیوی‘‘نے مجھے فلاسفر بنا یا ۔۔وہ مجھ پہ ظلم کرتی رہی میں برداشت کرتا رہا ۔۔اسی برداشت نے مجھے انسانیت کے بارے میں اوراعلیٰ اخلاق کے بارے میں سوچنا سیکھا یا اور میں فلاسفر بن گیا ‘‘۔۔اس کو ایک خوبرو نوجوان سے عشق تھا ۔۔ وہ تو وقت کے عظیم فلاسفر تھے۔۔۔میں ۔۔میں ایک گمنام ۔۔ایک بے حیثیت ۔۔۔وقت کے سمندر میں ایک قطرہ ۔۔بس میراکیا ہے ۔۔واجبی سی زندگی تھی ۔۔سامنے چہروں کاایک ہجوم ہوتا ۔۔پل کو منظر بدلتا پل کو سب سکرین پرسے غائب ہوتا ۔۔دل سے آنکھوں تک کا راستہ ویران ہی رہا ۔۔میں نے دنوں کے الٹ پھیر کو زندگی کا نام دیا اوروہ بے نام سی زندگی کئی سالوں پر محیط ہے ۔۔ایک سہانی صبح تھی یکایک ایک معصوم سی صورت پر نظر پڑی ۔۔ اس کی نشیلی اکھیوں میں بلا کی کشش تھی ۔۔میں اس کشش کی تاب نہ لا سکا ۔۔آنکھوں سے دل تک کے راستے میں بہت سارے پھول کھلے ۔۔تارے چمکنے لگے ۔۔دھوپ چھائی ۔۔چاند نے کھیت کیا ۔۔پرندے چہچہانے لگے ۔۔چٹانیں خوشنما نظر آنے لگیں ۔۔ندیاں گیت گانے لگیں ۔۔اور مسافر سیدھا دل میں اتر گیا ۔۔میں پڑھاکو تھا اس سمے افلاطون بہت یاد آیا ۔۔میں اس سے نظرین نہ ملا سکا۔۔ لیکن وہ پل پل میری نظروں کے سامنے رہتی ۔۔ تومیں بے تاب ساہوجاتا ۔۔اس کو آتے جاتے دیکھتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ۔۔دور سے اس کی خوشبو آتی ۔۔اس کے آنے کے راستے کامجھے پتہ تھامیں چھپکے سے اس کو آتا دیکھتا ۔۔جاتے ہوئے اس کے قدموں کے نشانات پہ آنکھیں جمائے رکھتا ۔۔اور پھروہاں جاکر وہ مٹی مٹھی میں بھر بھر کے کاغذ کے تھیلے میں ڈالتا ۔۔اپنے سرہانے رکھتا ۔۔رات کو اس پہ سر رکھ کے سوجاتا ۔۔اور رہ رہ کے اس مٹی کو چومتا رہتا ۔۔کیونکہ یہ محبوب کے قدموں تلے کی خاک تھی ۔۔میں بہت حسین خواب دیکھا کرتا ۔۔پتہ نہیں میر ی سوچوں میں وہ صرف میری تھی ۔۔۔ساری دنیا میرا رقیب بن گیا تھا ۔۔مجھے لگتا کہ کوئی اس کی طرف نہ دیکھے ۔۔اس کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی ۔۔اس کی اپنی پسند تھی ۔۔اس نے کبھی میری طرف نظر التفات سے نہیں دیکھا ۔۔اس کی محبت مجھ پہ قرض تھا مگر اس کو اس کی پرواہ نہیں تھی ۔۔وہ دوسروں کے سامنے چہکتی رہتی ۔۔میں ٹوٹ پھوٹ جاتا ۔۔پھر میں نے دعائیں کرناشروع کی ۔۔۔یا اللہ اس کو میری نظروں کے سامنے نہ لا ۔۔ایسا ہی ہوا۔۔وہ میری نظروں سے دور چلا گیا ۔۔جاتے جاتے وہ روتا گیا ۔۔شاید کچھ دن تڑپی ہو ۔۔پھر جب کسی بہانے ملنے آئی تو چیخ کر گلے سے لگ گئی یہ اس کی آخری محبت تھی ۔۔میری پاکیزہ محبت کے سمندر میں اس کی محبت کا صرف ایک قطرہ گرا ۔۔ہاں بس ایک ہی قطرہ ۔۔اوپن یونیو رسٹی کا بھلا ہو اس کے اسائنٹمنٹ لکھنے تھے ۔۔لکھتے لکھتے معیاری کاغذ ختم ہوگئے ۔۔باہر برف بھاری ہو رہی تھی ۔۔میں باہر نکلا ۔۔اور دور بازار پہنچ گیا ۔۔دکانوں میں کاغذوں کی کوالٹی دیکھتا رہا ۔۔ایک دکان سے کاغذات مل گئے دکاندار نے کہا ۔۔اتنی اہم چیز کیا لکھنی تھی کہ تم بنجارہ بن گئے ہو ۔۔میں نے ہنس کر کہا تھا ۔۔۔’’محبت نامہ‘‘۔۔اس نے کبھی ضد سے یا مجھے نہایت حقیر جان کر حقارت سے کہا تھا ’’کہ مجھے کالا رنگ پسند ہے ‘‘۔۔اس سمے دل نے چاہا تھا کہ دنیا کے سارے کالے کپڑے لا کر اس کے سامنے ڈھیر کر دوں ۔۔پھر وقت کی چور نگاہوں سے ڈر لگا ۔۔دل سے چین اور آنکھوں سے نیند رخصت ہو گئی تھی ۔۔راتوں کی تنہائی میں اس کا نام لے کر لمبا پکارتا ۔۔دل کا غبار گرد کی طرح پل کو صاف ہوتا ۔۔پھر یادوں کی دھند چھا جاتی ۔۔۔بہت سارے لوگ اس کو بہت پسند تھے اور مجھ کو بہت ناپسند تھے کیونکہ وہ مجھ سے میری روح چھینا چاہتے تھے ۔۔میرے پاس نہ عہدہ تھا۔۔ نہ پیسے تھے ۔۔نہ نام تھا ۔۔نہ شہرت تھی ۔۔اس کو شاید ان سب چیزوں کی ضرورت تھی ۔۔میرا دل اس آرزو میں رہتا کہ کاش وہ کبھی مجھ سے کوئی چیز طلب کرے ۔۔ایسا کبھی نہیں ہوا ۔۔وہ ایک خوشبو کا جھونکا تھا ۔۔اس کا نام میری زندگی تھی ۔۔وہ میرے لئے کھلی کائنات تھی ۔۔مجھے کہیں سے اس کانمبر مل ہی گیا ۔۔میں نے ’’میری زندگی‘‘ نام سے اس کو اپنے چھوٹے فون میں محفوظ کیا ۔۔پھر وہ زندگی کی رنگنیوں میں مست ہو گیا ۔۔اور مجھے سرے سے بھول تک گیا ۔۔میری روح میں ہلچل اور زیادہ ہوتا گیا ۔۔میری زات کرچی کرچی ہو گئی ۔۔’’ لیکن‘‘ میں اس کو بھول نہیں سکتا تھا ۔۔کیونکہ میرا یہ اچھوتا خیال پختہ ہو چلا تھا کہ وہ میرا ہے ۔وہ میرا نہیں تھا چاند کب آکے کسی مٹھی میں بند ہو تا ہے ۔یہ زندگی ایک ناٹک ہے ایک تماشہ ۔۔اس سمندر کے اند ر ہر کسی کے اپنے جذبات ہیں ۔۔اپنی مجبوریاں ہیں ۔۔لیکن کسی دوسرے کو اس کا احساس نہیں ہوتا ۔۔لیکن کیوں نہیں ہوتا ۔۔بیٹے کو ماں کی محبت ستاتی کیوں نہیں ہے ؟۔۔باپ کی محنت و شاقہ بیٹا بھولتا کیوں ہے ؟جس پہ احسان کیا جائے ۔۔وہ اپنے محسن کو بھولتا کیوں ہے؟ ۔جس سے محبت کی جائے وہ اس محبت کو بھولتا کیوں ہے ؟جس کو ’’چاند‘‘’’پھول ‘‘’’شگفتہ ‘‘ ’’خوشبو‘‘ ’’کلی‘‘’’شگوفہ‘‘ جیسے خوبصورت ناموں سے پکارا جائے وہ سننا گوارہ کیوں نہیں کرتا ۔۔جس کے لئے نیندیں قربان کی جائیں وہ نیند کے مزے لوٹے کیوں ؟جس کو اپنی ساری خوشیاں عطا کی جائیں وہ تجھے غم ہی کیوں دے ؟جس کو دیکھنے سے تیرا دل دھڑکے وہ تم سے آنکھیں چرائے کیوں ؟آخر یہ کیا بھید ہے ؟ میرے خیال میں ان سب کا حل ایک لفظ ’’ لیکن ‘‘ ہے ۔۔یہ ’’ جسٹیفیکیشن‘‘ ہے ۔۔بے شک تو اس سے محبت کرتا ہے ’’لیکن‘‘وہ تو تجھ سے نہیں کرتا ۔۔بے شک تو اس کی ہر خدمت کے لئے ہر وقت تیار ہے ’’لیکن‘‘ اس کو تو تیری خدمت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔۔بے شک وہ تیری آنکھوں میں بہت پیاری لگتی ہے ’’لیکن‘‘ تو تو اس کی آنکھوں میں پیارا نہیں لگتا۔۔۔وہ تجھے یاد آتا ہے ’’لیکن ‘‘ تو اسے یاد نہیں آتا ۔۔۔اس لئے تجھے حق ہی نہیں پہنچتا کہ کسی کو ’’ڈسٹرب‘‘کرے۔۔اس نے تیری محبت کا مذاق اڑایا ہے آو؛ اگر تیری انگلیوں میں طاقت ہے تو اس کا نمبر اپنے سل فون سے ڈیلیٹ کرو ۔۔اس نے دونوں ہاتھوں سے دل پکڑ کے کہا ’’لیکن ‘‘ دل کا کیا کروں گا ؟۔۔۔۔میں نے کاغذ قلم ایک طرف پھینک کر کہا کہ خدا اس ’’ لیکن ‘‘ کا بیڑا غرق کرے ۔۔جاؤ میرا دماغ خراب کر دیا ۔۔۔۔اس نے جاتے جاتے پھر کہا ’’لیکن‘‘محبت تو انسان کی ۔۔۔مجبور ی ۔۔ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔