گولین دو میگاواٹ بجلی گھر کا افتتاح بدست صوبائی وزیرمحمود خان اوریورپی سفیر ہوگیا

چترال ( نمائندہ چترال ایکسپریس ) خیبرپختونخوا کے وزیرکھیل ‘ثقافت‘میوزیم وامورنوجوانان اورپاکستان تحریک انصاف ملاکنڈ ریجن کے صدرمحمود خان نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت صوبے میں توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے مختلف مقامات پر350مائیکروہائیڈل پاورپراجیکٹ بنارہی ہے جس سے توانائی بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پربجلی لوڈشیڈنگ کا ازالہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں غیراعلانیہ شدید لوڈشیڈنگ کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے وفاق کو فوری طور پرلوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے کی ضروت ہے کیونکہ واپڈا کا تعلق وفاقی حکومت کے ساتھ ہے یہ بات انہوں نے چترال میں مائیکروہائیڈل پاور پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔واضح رہے کہ یہ منصوبہ 34کروڑوروپے کی لاگت سے ایس ارایس پی نے یوروپین یونین اور صوبائی حکومت کے تعاون سے بنایا ہے جس سے 2میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور اس سے چترال ٹاؤن کی 3ہزارآبادی کو بجلی کی سہولیات فراہم ہوگی۔اس موقع پر یورپی یونین کے سفیر،اراکین قومی وصوبائی اسمبلی شہزادہ افتخار الدین ‘ بی بی فوزیہ ‘ایس ار ایس پی کے چیف ایگزیکٹیوشہزادہ مسعود الملک‘پی ٹی آئی چترال کے صدر عبد الطیف اور معززین علاقہ کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔صوبائی وزیر محمود خان نے کہا کہ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی سے ماضی میں حکمرانوں نے ان وسائل کو صحیح معنوں میں استعمال میں لانے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ان وسائل کو صحیح معنوں میں استعمال میں لانے کیلئے بھرپور اقدامات کررہی ہے۔محمود خان نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ حکومتوں نے شعبہ تعلیم اورصحت سمیت تمام سرکاری اداروں کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا تھالیکن موجودہ صوبائی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی تمام اداروں کی حالت زار بہتر کرنے کیلئے ریکارڈ اقدامات اٹھائے اور آج نہ صرف تمام اداروں میں میرٹ کی بالا دستی کو یقینی بنا یا گیا ہے بلکہ تمام ادارے اپنے فرائض بطریق احسن انجام دے رہے ہیں۔صوبائی وزیر نے پاور سٹیشن میں بجلی کی ترسیل کا افتتاح کیا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔