داد بیداد ….بیجنگ اور ریاض کے فاصلے

……ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ …..
مرزا غالب نے بھلے وقتوں میں کہا تھا
؂ بوجھ وہ سرسے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ بنے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ریاض میں منعقد ہونے والے عرب سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے پاکستانی وزیراعظم کا چین کے دورے کے بعد ریاض کا دورہ کرنا اور عرب سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنا رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔رسی بھی ایسی جو خطرناک کھائی کے اوپر ہری شاخوں کے درمیان تنی ہوئی ہے کسی بھی لمحے رسی ٹوٹنے کا خطرہ ہے جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں سعودی عرب نے 1980ء کی دہائی میں پاکستان کی سرزمین پر سویت یونین اور امریکہ کے درمیان لڑی جانے والی پراکسی لڑائی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان پُل کا کام دیا اب چین اور امریکہ کے درمیان پراکسی جنگ کا میدان گرم ہے سعودی عرب اس جنگ میں بھی امریکہ کا اتحادی ہے پاکستان ایک بار پھر میدان جنگ ہے کوئٹہ ، مستونگ اور گوادر سے لیکر لاہور، پشاور اور فاٹا میں بدامنی تک سب اس جنگ کی چند جھلکیاں ہیں سندھی مزدوروں کی جان چلی جائے ،علمائے کرام کے قافلے کو نشانہ بنالیا جائے ،کسی گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں پر بم گرایا جائے یا ہسپتال میں زیر علاج مریضوں پر راکٹ برسائے جائیں ہر واردات میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا مزدور لقمہ اجل بنے توامریکہ ،سعودی عرب ، اسرائیل اور بھارت کو فرق نہیں پڑتا فیض کہتا ہے۔
؂ نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
چین بھی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے وہ اپنی لڑائی اپنی سرزمین پر لڑنے کا روادار نہیں وہ چاہتا ہے کہ اس کی لڑائی پاکستان میں لڑی جائے جس طرح ہم کرکٹ میں اپنا ہوم سیریز لیکر دوبئی ، شارجہ یا قطر کا رخ کرتے ہیں بالکل اسی طرح چین ، امریکہ اور سعودی عرب بھی اپنا ہوم سریز لیکر پاکستان آتے ہیں سویت یونین اور امریکہ کی لڑائی بڑی پراکسی تھی اس کے پیٹ سے چھوٹی چھوٹی بے شمار لڑائیاں پیدا ہوئیں ایران عراق جنگ ان میں سے ایک تھی کویت عراق جنگ بھی اس پراکسی وار کا حصہ تھی اب جو محاذِ جنگ امریکہ اور چین کے درمیان گرم ہوا ہے اس میں بھی چھوٹی جنگوں کی بڑی گنجائش رکھی جارہی ہے مثلاً پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ کرائی جارہی ہے ایران اور پاکستان کے درمیان محاذ جنگ کو گرم کیا جارہا ہے پاکستان کی سیاسی قیادت ، مذہبی قیادت ، سماجی قیادت ، پاکستان کے ذرائع ابلاغ سب ملکر ایران اور افغانستان کو بڑا دشمن ثابت کرنے پر زور لگا رہے ہیں امریکہ ، اسرائیل، سعودی عرب اور بھارت کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا پاکستان میں داعش اور آئی ایس کے 13گروہ منظم طریقے سے دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو امریکہ اور اسرائیل کی غلامی میں دینے کی مہم چلا رہے ہیں ان گروہوں کی نظر میں مسلمان ہونا اہمیت نہیں رکھتا امریکہ کا اتحادی ہونا اہمیت رکھتا ہے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بیجنگ میں ون بیلٹ ون روٹ کے تحت پاکستان میں اقتصادی ترقی کے امکانات کا بغور جائزہ لیا اس کے بعد ریاض میں عرب سربراہ کانفرنس کا ایجنڈہ بہت مختصر ہے اسرائیل کا تحفظ، اسرائیل کے سرحدوں کی توسیع، امریکہ کی خوشنودی ، ایران اور حزب اللہ کی مذمت کے لئے ریاض کانفرنس بلائی گئی ہے۔پاکستان ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے آگے عوامی جمہوریہ چین کے تعاون سے 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے پیچھے امریکہ اور سعودی عرب کا خوف ہے اسرائیل اور بھارت کے ساتھ دشمنی مول لینے کا خطرہ ہے’’کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے‘‘ عوامی جمہوریہ چین وطن عزیز پاکستان میں انفراسٹرکچر کی ترقی پر سرمایہ لگارہا ہے امریکہ اور سعودی عرب ملکر دہشت گردوں کی تربیت پر سرمایہ کاری کررہے ہیں ہم دونوں کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ ہماری خارجہ پالیسی کی کوئی سمت نہیں ہے مرزا غالب نے کہا تھا
؂ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ابھی رہبر کو میں
ہمارے جو’’گڈ طالبان ‘‘ ہیں وہ امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے ملے ہوئے تحائف ہیں گڈ طالبان یا ’’مفید دہشت گرد‘‘کا نام بھی انہی لوگو ں نے ہمارے میڈیا کو دیدیا ہے اور یہ نام بھارت کے بہت کام آرہا ہے بھارت ایک طرف ہمارے’’گڈ طالبان‘‘کو پاکستان کے اندر چین کے خلاف پراکسی وار میں استعمال کررہا ہے دوسری طرف ’’گڈطالبان‘‘ کی مدد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اڈے تلاش کررہا ہے پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھارہا ہے کہ دہشت گردی کے امریکی اڈوں کو ختم کرو ۔اپریشن خیبر وَن ، خیبر ٹو، اپریشن ضرب غصب اور اپریشن ردّالفساد کے باوجود دہشت گردوں کی کمر نہیں ٹوٹی تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے اب بیجنگ اور ریاض کے درمیان مزید فاصلے پیدا ہوئے ہیں ہم دونوں کا ساتھ نہیں دے سکتے ہمیں دو ٹوک انداز میں چین کا ساتھ دینا چاہیے بقول مرزا غالب
؂ قیامت ہے کہ ہووئے مدعی کا ہم سفر غالبؔ
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔