دھڑکنوں کی زبان…….. اس وطن کے پر چم کو سربلند ہی رکھنا ۔۔

………محمد جاوید حیات………

میں اپنے سکول کی صبح کی اسمبلی میں قومی ترانے کے بعد ہفتے میں تین بار اقبال ؒ کی دعا ایک بار سکاؤٹنگ ترانہ اور دو بار قومی نغمہ پیش کراتا ہوں ۔۔نغمہ پڑھنے والے بچے گروپ میں ہوتے ہیں ۔۔اور نغمہ ۔۔یہ وطن تمہارا ہے ۔۔۔پڑھتے ہیں ۔۔ان کو اس نغمے کے صرف بول آتے ہیں ۔۔ان کو پتہ نہیں کہ اس وطن نے کن کن کی تجوریاں نوٹوں سے بھر دی ہے ۔۔کس کس کو چمکتی کرسی سونپ دی ہے ۔۔کس کس کے گھروندوں کو محلوں میں بدل دیا ہے ۔۔کس کس کے حصے میں کارخانے آئے ہیں ۔۔ کس کس کے خوں سے اس کی مٹی رنگیں ہوئی ہے مگر وہ گوشہ گمنامی میں ہیں ۔۔ان اس نغمے کے صرف بول آتے ہیں ۔۔بچے ہیں کہ جھوم جھوم کے پڑھتے ہیں ۔۔جب اس مصرع پہ آجاتے ہیں ۔۔۔اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا ۔۔۔تو سب کی نگاہیں اپنے اوپر لہلہاتے سبز ہلالی پرچم کی طرف اٹھتی ہیں۔۔کہیں سے عضب کی چمک بچوں کی آنکھوں میں اتر آتی ہے ۔۔میں یہ محسوس کرکے بیتاب ہوجاتا ہو ں ۔۔بچوں کی آواز سے بمبوریت کے پہاڑ گونج اٹھتے ہیں ۔۔اور گوہی دیتے ہیں کہ یہ سر زمین قائم رہے گی ۔۔اور یہ سبز ہلالی پرچم بلند رہے گا ۔۔مجھے اپنی معلمی پہ فخر ہوتا ہے ۔۔میرے سامنے چار سو بچے اور پچیس اساتذہ ہیں سب مجھے ’’ہیڈ سر ‘‘ کہتے ہیں ۔۔میرا احترا م کرتے ہیں ۔۔بچیاں ہیں ۔۔میرے سامنے سر جھکائے کھڑی رہتی ہیں۔ اس انتظار میں کہ میں کوئی حکم سناؤں ۔۔میرا دل کرتا ہے کہ اس مٹی کو چوموں ۔۔یہ عزت یہ مقام اس نے مجھے دی ہے ۔۔ورنہ تو رزق ہر کہیں مجھے ملتا ۔۔میں اللہ کا بندہ ہوں ۔۔پھر میں سوچتا ہوں کہ مجھے میرے رب نے احساس سے بھی ملامال کیا ہے ۔۔اگر میں کوئی بڑا آفیسر ہوتا ۔۔اور اس احساس سے اگر محروم آفیسر ہوتا ۔۔تو میں ناشکرا ہوتا ۔۔یہ دھرتی مجھے معاف نہ کرتی ۔۔میں کوئی امیر کبیر ہوتا ۔۔میں باہر یاترا کرتا اور اس دھرتی کو پسماندہ کہہ کر طعنہ دیتا ۔۔میرے کارخانے ہوتے اور دولت کی ریل پیل میں اس مٹی کی خوشبو تک نہ سونگھ سکتا ۔۔۔میں کسی اور ادارے میں ہوتا ۔۔تو نہ ان بلبلوں کی سریلی آواز مجھے سنائی دیتی۔۔اور نہ میں ان کی آنکھوں میں اتری چمک دیکھ سکتا ۔۔۔یہ مجھ پہ اللہ کا احسان ہے ۔۔یہ مٹی یہ پاک مٹی ۔۔اس کی محبت ہر ایک کا اثاثہ ہوناچاہیے ۔۔اس لئے میں ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ یہ نغمہ ان بلبلوں سے پڑھواتا ہوں ۔۔پھر ایک نیا عزم نیا ولوالہ ہمارے تن بدن میں سرائت کر جاتا ہے ۔۔گویا کہ یہ مٹی آواز دی رہی ہے ’’کہ میں تخفہ ہوں میں امانت ہوں ۔۔میں انعام ہوں ۔۔اس مٹی کی خدمت تمہاری پہچان ہے ۔۔اس مٹی کو کام چوری ،عفلت ،ناانصافی ،ظلم ،خیانت ،اور بے وفائی سے بدبو دار نہ کرو ۔۔اس کی خوشبو محسوس کرو ۔۔اس کو ایمان داری سے بھر دو ‘‘۔۔میں اپنے سٹاف کے چہرے پڑھتا ہوں ۔۔ان کے عزم کا مطالعہ کرتا ہوں ۔۔ان کی محنت اور خلوص کا جائزہ لیتا ہوں ۔۔پھر ہر کلاس میں جاتا ہوں ۔۔مجھے ہر بچہ سبز ہلالی پرچم کے سائے میں نظر آتا ہے ۔۔ان کے چہروں پہ ۔’’بڑا آدمی‘‘ ۔۔۔لکھا ہوا ہوتا ہے ۔۔وہ ابھی نہیں پڑھ سکتے ہیں ۔۔ابھی ان کو بہت کچھ کرنا ہوتا ہے ۔۔میں پڑھتا ہوں اور ان کو یہ جملہ سناتا ہوں ۔۔ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں ۔۔نیلا گگن اس بات پہ گواہ ہوتا ہے ۔۔کہ یہ بڑے آدمی بن جائیں گے۔۔یہ وہی عزم ہے جو قوموں کو بہادر بناتا ہے ۔۔ان کو ان کی منزل کی نشاندہی کراتا ہے ۔۔یہ چمک پھیل جاتی ہے ان کا پرچم سر بلند رہتا ہے ۔۔ان کی رگوں میں خون ہمیشہ گرم رہتا ہے ۔۔یہ زندگی کا لطف لیتے ہیں یہ آزادی کا لطف لیتے ہیں ۔۔میں اس نغمے کی سروں میں مست رہتا ہوں پھر ہفتے کا وہ دن آتا ہے جب اس نغمے کی باری ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبا ن اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمین کا ہر زرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے ،بحرو بر تمہارے ہیں
کہکشان کے یہ جالے رہگذر تمہارے ہیں
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خوان اس کے
اس زمین کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میر کاروں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے ۔۔۔۔
یہ زمین مقدس ہے ماں کی پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقین لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امین لوگو
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے ۔۔۔
میر کارواں ہم تھے روح کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنوان تھے اصل داستان تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبا ن اس کے ۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔