روزے کے تقاضے

……تحریر: اقبال حیات ؔ آف برغذی …

روزہ صرف کھانے پینے پر قد عن لگانے کا نام نہیں ۔ بلکہ اس کا دائرہ پورے وجود تک پھیلا ہوتا ہے۔ بدن کے ہر اعضاء سے سر ذد ہونے والی نا فرمانیوں اور خلا ف شرع کاموں سے اجتناب یہاں تک کہ دل کی کیفیات کو بھی صاف اور شفاف رکھنے سے روزے کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔ جہاں غیر اخلاقی باتوں کے سننے، نظروں کے ناروا استعمال ہاتھ پاؤں کی بے رہروی اور ذبان کی آلودگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وہاں فاسد خیالات ، بد خواہی اور ہر قسم کی منفی تصورات کو بھی دل کے قریب پھٹکنے نہ دینا روزے کی روح کی سلامتی کا آئینہ دار ہے۔ چونکہ روزہ غربت اور افلاس کی کیفیت سے آگاہی اور اس بنیاد پر دوسروں کی غمخواری کے فلسفے اور خدا اور بندے کے درمیانء براہ راست تعلق کی حیثیت کا حامل عمل ہے۔ اس لئے معاملات کو اس ضابطے کے مطابق انجام دینے کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کسی روزہ دار کی افطاری کا اہتمام کرنے سے روزے کے برابر ثواب ملنے کا اسلامی تصور یقینی طور پر اس امر کا متقاضی ہے کہ کارو با ر کے دوران بھی جائیز اور نا جائز منافع خوری کا خیال رکھتے ہوئے خریداروں کے دسترس کو یقینی بنایا جائے ۔ اور روزہ داروں کی ضروریات سے ناجائز فائدہ اٹھانے سے اجتناب کیا جائے ۔ بصورت دیگر دنیاوی لحاظ سے کمائی کا رنگ نظر آئیگا ۔ مگر اخروی اعتبار سے روزے کے فیوض و برکات سے خاطر خواہ استفادے کی صورت نہیں بن سکتی ۔ اس سلسلے میں انتظامیہ کا بھی یہ فرض بنتا ہے۔ کہ وہ خصوصاً رمضان کے مقدس مہینے میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھنے کے سلسلے میں کسی قسم کی رو رعایت اور غرض و غایت کو فرض کی ادائیگی میں مائع ہونے نہ دے تاکہ خدا نا ترس افراد عوام کے گلے پر کند چھری چلانے جیسے قبیح فعل کا ارتکاب نہ کر سکیں ۔اگر چہ بحیثیت مسلمان ہمیں خود رمضان کے مقدس مہینے کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے بند گان خدا سے خصوصی محبت کے مذہبی تقاضے کے لیے خود میں تڑپ پیدا کرنا ہے اور اس سلسلے میں کسی کی نگاہداری اور انتباہ کی ضرورت نہیں مگر بدقسمتی سے ہم مادہ پرستی کے چنگل میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ دینی تقاضوں اور خدا کی رضا جوئی کے تخیلات سے ذہن کے نہاں خانے خالی ہوچکے ہیں ۔ اور اغیار کی اپنی مذہبی اہمیت کے حامل ایام کے دوران بندگان خدا کی خیر خواہی کے جذبے کو دیکھ کر بھی شرمسار نہیں ہوتے اور ہماری دینی غیرت انگڑائی نہیں لیتی ۔ اس لئے رضائے الہی کے حصول کی خوش بختی سے سرفراز ہونے کے لئے روزے کی بنیاد ی فلسفے کے رنگ میں خود کو رنگین کرنے کی صورت میں افطار کے وقت دعا کے لیے اٹھنے والے ہاتھ انعام و اکرام خداوندی سے کبھی بھی خالی نہ ہونگے ۔ بصورت دیگر اگر رسمی طور پر روزے کے مقدس مہینے کو بوجھ سمجھ کر اور تراویح کے لیے تیز نماز پڑھنے والے امام کے متلاشی ہو کر اپنا یا جائے تو سوائے بھو ک اور پیاس کی کیفیت سے دوچار ہونے کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ کیونکہ جس عمل میں حکم خداوندی کی بجاآوری کا جذبہ اور شوق شامل نہ ہو وہ عمل “مچوڑیو خسمت انگار تو ذوہچ “کے مترادف ہوگا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔