دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیش بندی کا نہ ہونا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفاظ کے گورکھ دھندوں سے عمل کی خوبصورتی تک بظاہر کوئی اتنا بڑا فا صلہ نہیں ۔۔لیکن اس خلیج کو پاٹنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔۔یہ کسی پر عزم انسان ہی پاٹ سکتا ہے ۔۔کام کرنے والے کبھی بحث نہیں کرتے ۔۔ان کے پاس دلائل کے لئے وقت نہیں ہوتا ۔۔ان کا کام ہی ان کی بڑائی کی دلیل ہوتی ہے ۔۔ان کا بڑا ہونے کی دلیل ان کی محنت ،ان کے خلوص ،ان کی جدو جہدہوتی ہے ۔۔وہ خاموشی سے کام کرتے ہیں ۔۔کسی انگریز شاعر نے کہا کہ ۔۔جب دوسرے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ جرا ت سے ڈٹ جاتے ہیں ۔۔وہ قوم کا جھنڈا مضبوطی سے گاڑ تے ہیں اور ان کوآسمان تک لے جاتے ہیں ۔۔ جب دوسرے خالی شور مچاتے ہیں تو یہ خاموشی سے کام کرتے ہیں ۔۔۔انگریزشاعر سچ کہتا ہے ۔۔کام کرنے والوں کے سامنے ایک عظیم مقصد ہوتا ہے ۔۔وہ کریڈٹ لینے کی فکر میں نہیں ہوتے ۔۔کریڈٹ خود ان کو پکارتا ہے ۔۔اچھائیاں ان کا پیچھاکرتی ہیں ۔۔ان کو صرف نام کی تشہیر کا شوق نہیں ہوتا۔۔ ہمارے ملک میں کریڈٹ لینے کا کلچر ہے ۔۔شور مچایا جاتا ہے ۔۔اشتہار کیا جاتا ہے ۔۔۔پروپگینڈا کیا جاتا ہے ۔۔دعوے کئے جاتے ہیں ۔۔لیکن کام تک آجائے تو نتیجہ کم کم آتا ہے ۔۔۔چترال میں اس قومی کلچر کا المیہ سرائیت کر گیا ہے ۔۔ہم بھی اس کلچر کے سحر میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔۔غیر سرکاری ادارے ،سیاسی جماعتیں ،لیڈر شب ،سوشل ورکرز سب کو تشہیر کا خبط ہے ۔۔گلی کوچے درو دیوار اشتہارات سے لیپے جاتے ہیں ۔۔غیر سرکاری سکولوں کے ،ٹیوشن سنٹروں کے دیدہ زیب اشتہارات آنکھوں کوچندھیاتی ہیں ۔۔دکانوں کے سامنے سائین بورڈز۔۔ آخر یہ کیسا کلچر ہے ۔۔۔چترال میں مختلف غیر سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں ان کی خدمات ڈھکی چھپی نہیں ۔۔لیکن جہان تک محسوس کیا جاتا ہے پیش بندی کا فقدان نظر آتا ہے ۔۔موجود لمحوں میں چترال ٹاؤن کے لئے ایس آر ایس پی کے انتظام سے بننے والا گولین گول پاور اسٹیشن ہے ۔۔جو ایک تحفے سے کم نہیں ۔۔لیکن اس میں پیش بندی کا بڑا فقدان نظر آتا ہے ۔۔کام شروع ہونے سے پہلے کہاجاتا ہے کہ چھ مہینے میں مکمل ہو جائے گا ۔۔اور یہ دو میگاواٹ کا بجلی گھر چھ مہینے میں مکمل ہونا ناممکن تھا اور ہے ۔۔وقت کا تعین کرنا کونسی منطق ہے ۔۔وقت پر مکمل نہیں ہوا تو عوام کا اضطراب بڑھ گیا اور ادارے سے اعتماد اٹھنے لگا ۔۔سیاسی دکانیں چمکیں ۔۔پریشانیاں بڑھیں ۔۔امیدیں خاک میں مل گئیں ۔۔ایس آر ایس پی کی یہ پریکٹس نہیں ہونی چاہیے ۔۔اتنا ذمہ دار اور خدمت میں پیش پیش ادارہ موضع اُجنو میں بجلی گھر بنا رہا ہے یہ اس کا تیسرا سال ہے ۔۔چھ مہینے کی بات تھی ۔۔سوال ہے کہ زندہ قومیں کام کرتی ہیں پرو پگینڈہ نہیں کرتیں ۔۔ہم عوام کو خدمات کا اعتراف ہے لیکن ان اداروں کو برا بھلا کہنے سے غصہ آتا ہے کہ ایک ادارہ خدمت کر رہا ہے کام ہو رہا ہے لیکن پھر تنقید کا نشانہ بھی بن رہا ہے۔۔اس کو شاباشی کی جگہ ملامت کیا جا رہا ہے۔۔خود ایسے اداروں کو محسوس کرنا چاہیے کہ ان کا پبلک سے تعلق ہوتا ہے اس لئے اپنا ساکھ رکھنا ہوتا ہے ۔۔چترال کو اندھیروں سے نکالنا ایک تاریخ ساز کام ہے ۔۔اور ایسی خدمت ہے کہ اس کو تا قیامت یاد رکھا جائے گا ۔۔ چترال میں سستی شہرت سستی سیاست اور کریڈٹ لینے کا کلچر نہیں ہونا چاہیے ۔۔ایک گھر میں اگر کریڈٹ لینا شروع ہوجائے ۔۔تو اچھا نہیں لگتا ۔۔اپنی ماں کا باورچی خانہ روشن کر کے اللہ کا شکر ادا کریں پھر کس کی تعریف کا انتظار کر رہے ہو ۔۔یہ ماں کی دعا تعریف نہیں اور کیا ہے ۔۔پھر سیاست کی حالت بھی یوں ہوتی جا رہی ہے ۔۔مجھے سو فیصد یقین ہے جو خدمت کرے گا جس کے دل میں درد اور خلوص ہو گا اللہ اس کو اس کا بدلہ دے گا ۔۔اقتدار کا تاج پھر اس کے سر سجے گا ۔۔اس کے ہاتھوں تختیاں آویزا ن ہوں یا نہ ہوں ۔۔۔یہ ہمارا چھوٹا سا گھر ہے اس کو مل کے سجانا ہے ۔۔اس میں کریڈٹ لینے کی کھینچا تانی نہیں ہونی چاہیے ۔۔سارے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے ۔۔مگر چترال میں بجلی ہوتے ہوئے لوڈ شیڈنگ ہے ۔۔یہ مس منیجمنٹ ہے ۔۔پیش بندی کا نہ ہونا ہے ۔۔اس لئے عوام میں اضطراب پیدا ہوتا ہے نفرتیں بڑھتی ہیں ۔۔ہم مفت میں پریشان ہوتے ہیں ۔۔رب ہماری پریشانیاں دور فر مائے۔۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔