دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ تعلیمی انقلاب کی پھرجدہ پیمائی ‘‘

…………..محمد جاوید حیات……….
انقلاب محض الفاظ کے گورکھ دھندوں سے نہیں آتا ۔۔۔یہ قربانی ۔جذبہ قربانی ،ہمت ،جہد مسلسل،امنگ ، شوق، خلوص،دل سوزی ،دوراندیشی ،مستقل مزاجی اور عظمت کردار سے آتا ہے ۔۔انقلاب زندگی ہے ۔۔اور روح امم کی حیات کشمکش انقلاب ہے ۔۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ تعلیم ہی قوموں کئے لئے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے ۔۔جس انقلاب کی بنیاد تعلیم رہی وہ دیر پا رہا اور جس کی تلوار رہی وہ منزل کھو بیٹھا ۔۔یونایوں نے تعلیم کو اوڑھنا بچھونا بنا یا آج بھی دنیا ان کا احسان مند ہے ۔۔امت مسلمہ کی بنیاد تعلیم پہ رکھی گئی سات سو سال تک دنیا پر چھائی رہی ۔۔یورپ تعلیم کو لے کر آگے بڑھا آج دنیا ان کے پیچھے ہے ۔۔ہمیں اس بات پہ فخر ہے کہ ہماری ابتدا ’’اقریٰ‘‘سے ہوئی اور جس امت کی ابتدا لفظ ’’پڑھ ‘‘ سے ہو جائے وہ دنیا کے اندر ’’ان پڑھ ‘‘ کس طرح ہو سکتی ہے ۔۔البتہ اپنے اس تعارف سے غفلت کا سبب ہے کہ ہم پیچھے چلے گئے ہیں۔۔ برصغیر میں جب ہماری غلامی کا دور شروع ہو اتو ہمارے نئے آقاؤں نے ہم پہ ایک تعلیمی نظام مسلط کیا جو لارڈ میکالے کا نظام کہلاتا ہے جو آہستہ آہستہ مذید روایتی بنتا رہا ۔۔دوسری دنیا عملی تعلیم ،تجربات ،ایجادات ،نظریات ،دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں میں آگے بڑھتی رہی مگر ہم روایات پر تکیہ کرتے رہے ۔۔کلرک بنتے رہے ۔۔اداروں میں وہی روایات برقرار رہے ۔۔آہستہ آہستہ استاد احتساب نہ ہونے کی وجہ سے کاہل بنتا گیا۔۔پرائمیری میں ایک استاد ۔۔ہاتھ میں ڈنڈا۔۔ بچوں کا ہجوم ۔۔پھر بہترین تعلیم و تربیت کی توقع ۔۔دستیاب وسائل کی کمی۔۔ بنیادی سہولیت کا فقدان ۔۔اس سمے اشرافیہ کے لئے سہولیات سے بھر پور الگ شاندار ادارے ۔۔تعلیمی عمل نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ۔۔۔بڑے بڑوں اور ارباباں اختیار واقتدار کی توجہ کا مرکز ۔۔۔مگر سرکاری ادارے وہی بے توجہی کا شکار ۔۔یہ اسباب وہی ہیں کہ سرکاری اداروں سے اعتماد اٹھتا گیا ۔۔آہستہ آہستہ وقت کے حکمران، سرکاری محکمے ،اداروں ،اور سرکاری حکام نے یہ محسوس کیا کہ سرکاری اداروں میں انقلاب کیسے لایا جائے ۔۔انھوں نے پہلے اداروں کو سہولیات سے بھرنا شروع کیا ۔۔چار دیواری سے لیکر فر نیچر تک ،کتابوں سے لے کر سائنسی سامان تک اور پھر سٹاف کی تعداد میں بھر پور اضافے تک نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے ۔۔یہ جس دور میں جیسے جیسے ہوتے رہے یہ سب جانتے ہیں ۔۔موجودہ حکومت کی این ٹی ایس کے ذریعے بھرتیوں میں ایک حد تک شفافیت اور مانیٹیرنگ کا نظام نمایاں تبدیلیاں ہیں ۔۔البتہ ان میں مذید بہتری اور تبدیلی کی گنجائیشات بھی ہیں اور اشد ضرورت بھی ہے ۔۔جس میں نئے اساتذہ کی مناسب ٹرینگ بہت ضروری ہے ۔۔داخلہ مہم ،بچیوں کے لئے وظیفہ ،ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت ،اساتذہ کی حوصلہ افزائی ،بہترین استاد کو اس کا مقام دینا ،سالانہ ترقیاں ،تنخواہوں میں روز افزون اضافہ اور سب سے بڑی بات کہ اداروں میں اساتذہ کی کمی دور کرنا بہت بڑے اقدامات ہیں ۔۔میرا پچیس سال کا تجربہ ہے کہ ہمارا پریڈ خالی ہونے کا تصور نہ تھا دن میں اٹھ اٹھ پریڈ پڑھایا کرتے تھے ۔۔آج وہ دور یاد کرکے عجیب لگتا ہے ۔۔ اب میرے نزدیک اس نئے انقلاب کے لئے صرف ایک نئے عزم سے جدہ پیمائی کی ضرورت ہے ۔۔میں بڑے اعتماد اور فخر سے کہتا ہوں کہ محکمہ تعلیم ضلع چترال مردانہ اور شایدزنانہ دونوں اس نئے جدہ پیمائی کے لئے پر عزم ہیں ان کو احساس ہو رہا ہے کہ انقلاب ان کے ہاتھوں آنا ہے ۔۔محکمہ تعلیم ضلع چترال بہترین قیادت کے ہاتھوں میں ہے ۔۔چترال کے ٹاپ موسٹ کلرکل سٹاف موجود ہے جو اپنی پشہ ورانہ مہارت سے مطمین ہیں ۔پھر اچھی بات یہ کہ ان کو اساتذہ کے مرتبے اورا حترام کا احساس ہے ۔۔اگر پھر بھی فیوریٹیزم کا میل ہے تو وہ آہستہ آہستہ دھل رہا ہے ۔۔اعلی با صلاحیت آفیسروں کا گروپ ہے ۔۔جن کے پاس عزم بھی ہے ان کے سامنے ان کا روشن مستقبل بھی ہے میر کارواں ہونے کے خواب بھی ہیں ۔۔ایک ویژنیری قیادت ہے ۔۔جو اس محکمے کی ساکھ بحال کرنے اور نمایاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔۔ مانیٹرنگ کا نظام ہے ۔۔اساتذہ کی فوج ظفر موج ہے ۔۔اب انقلاب کی دیر کیوں ؟۔۔اب انقلاب خواب نہیں رہا ہے ۔۔ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے ۔۔میں ماہانہ میٹنگوں میں اپنے سٹاف کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں ۔۔اب اگر ہم کام نہ کریں گے تو نہ وقت ہمیں معاف کرے گا نہ تاریخ ، نہ زمانہ اور نہ یہ قوم ۔۔سلام ہو قوم کے ان محسنوں پہ جنھوں نے اس بے سروسامانی کے دور میں اس قوم کی خدمت کی ۔۔آج کونسی روکاوٹ ہے ۔۔آج میڈیا کا دور ہے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ۔۔ آج کے استاد کے ہاتھ میں قلم بھی ہے ۔۔منہ میں زبان ہے۔۔ آئی ٹی کی وہ ساری سہولیات ہیں۔۔ وہ بجا طور پر شیخ مکتب ہے۔۔ اس کے پاس قوم کی قیادت اور قوم کو عظیم سپوتوں سے ملامال کرنے کی صلاحیت ہے ۔۔البتہ استاد کو اپنے کام اور ادارے سے مخلص ہونا چاہئے ۔۔اس کا ضلعی قیادت اس کے لئے سب کچھ ہو۔۔ اس کا ڈی ای او ،ڈی ڈی او، اے ڈی اوز ان کا سب کچھ ہوں ۔۔ان کا کسی سے کوئی سروکا ر نہ ہو۔۔اس کے سامنے سیاست ،بیک ڈور ،فرنٹ ڈور ،آوٹ ڈور ،تعلق وغیرہ کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔۔ان کا ایک قبلہ ہو ایک راستہ ہو ۔۔اور اس کی قیادت کے پاس بھی ایسی صلاحیت ہو ۔۔سال ۲۰۱۷اور ۲۰۱۸ کے لئے جو ورک پلان بنایا گیا ہے اس کے لئے ڈی ڈی او جناب ممتاز محمد وردک اور آپ کا عملہ مبارک باد کے مستحق ہیں یہ ایک انقلاب کی پیش بندی ہے اب دیکھنا ہے کہ میر کارواں کے ساتھی کتنے مخلص ہیں کہ اپنے اپنے اداروں میں انقلاب لا سکیں ۔۔۔اس ورک پلان میں سب کچھ ہے ۔۔ہدایات ہیں ۔۔اعلی شیخ مکتب کے اوصاف ہیں ۔ان کے فرائض کی نشاندھیاں ہیں۔۔ان کے لئے پورے سال کے لئے تفویض کارہے ۔۔سربراہاں ادارہ کے فرایض اور اوصاف درج ہیں ۔۔مثالی استاد کے اوصاف کے چارٹس ہیں ۔۔چیک لسٹ ہیں ۔۔بچوں کی قایدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ہم نصابی سر گرمیوں کی لسٹ ہیں ۔۔کلاس روم اور کلاس روم سے باہر سارے تعلیمی عمل کی وضاحتیں ہیں ۔۔۔ گویا انقلاب کے سارے سامان سے اس کارواں کو لیس کیا گیا ہے ۔۔اب شاید کوئی بہانہ بھی نہ ہو اب صرف عزم، ہمت اور حوصلہ چاہیے کہ میر کارواں کی کوششیں اکارت نہ جائیں ۔۔اور اس کے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے میں کوئی چیز روکاوٹ نہ ہو ۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔