ٹاون میں بجلی کی آنکھ مچولی

چترال ٹاون میں سب سے بڑی مصیبت بجلی کی آنکھ مچولی اور کم وولٹیج کامسئلہ ہے ٹاون کے تین حصے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر ٹاون ٹو یعنی بازار،آس پاس کے علاقے، دفترات اور ہسپتال وغیرہ کا علاقہ ہے،ٹاون کو بجلی دینے کے چار ذرائع ہیں،نیشنل گرِڈ سے2میگاواٹ بجلی آتی ہے۔گانکورینی سے600کلواٹ بجلی لائی گئی ے۔گولین میں ایس آر ایس پی کے مائیکروہائیڈل سکیم سے 2میگاواٹ بجلی دی جارہی ہے۔اچھی حکومتوں میں اچھے نمائندؤں کی آواز پر ڈیزل جنریٹر سے2میگاواٹ بجلی دی جاتی تھی۔موجودہ حالات میں چترال ٹاون یتیم ہے۔اس کا والی وارث کوئی نہیں اس لئے ہم اپنی آواز حکومت کے ایوانوں تک کبھی نہیں پہنچاسکینگے۔گولین سے ایس آر ایس پی کی بجلی آنے سے پہلے ٹاون ٹو میں18گھنٹے روازنہ لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ایس آر ایس پی کی 2میگاواٹ بجلی آنے کے بعد اصولی طورپر لوڈ شیڈنگ ختم ہونی چاہیئے تھی۔ٹاون کے عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔مگر ایس آر ایس پی کی بجلی کو قواعد وضوابط کے مطابق تقسیم نہیں کیا گیاطاقت ور کو بجلی دی گئی ،کمزور کو محروم کیا گیا۔واپڈا کو سب سے زیادہ آمدنی ٹاون ٹو سے حاصل ہوتی ہے۔یہاں بازار اور کاروباری مراکز واقع ہیں۔ہوٹل اور ریسٹورنٹ واقع ہیں۔دفاتر اور ہسپتال واقع ہیں۔انتظامیہ نے ناموس رسالت کے لئے احتجاج کرنے والے بے گناہ نوجوانوں کو جیل میں ڈال کر یہ فرض کرلیا ہے کہ اب ٹاون کے عوام قیدیوں کی رہائی تک اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نہیں آسکینگے مگر رمضان المبارک میں روز ہ داروں کو بے جا تنگ کیا گیا تو عوام نہ صرف سڑکوں پر آئینگے بلکہ احتجاج بھی کرینگے،توڑ پھوڑ بھی کرینگے۔ہم چاہتے ہیں کہ واپڈا والے اس کی نوبت آنے نہ دیں۔عوام کو درگئی اور ملاکنڈ کی طرح قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور نہ کریں۔موجودہ حالات میں رمضان المبارک نصف ہونے کے قریب ہے۔ٹاون میں دن کے وقت 2گھنٹے اور رات کے وقت 3گھنٹے بجلی آتی ہے وہ بھی مسلسل نہیں آتی۔آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے۔اس وجہ سے مشینری کے جلنے کا خطرہ رہتا ہے۔شارٹ سرکٹ کا خطرہ بھی رہتا ہے۔واپڈا پر عوام کا اعتمادپہلے ہی اُٹھ چکاتھا۔اب ایس آر ایس پی پر بھی عوام کا اعتماد نہیں رہا،مقامی انتظامیہ پر بھی عوام کا اعتماد نہیں رہا،ضلعی حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہوگیا ۔ٹاون ٹو اس لحاظ سے بھی بدقسمت ہے کہ ضلع ناظم کا تعلق ٹاون ٹو سے نہیں اس وجہ سے طاقتور لوگ کئی گھنٹے بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔دیگر علاقوں کو بجلی دیدیتے ہیں ٹاون ٹو کو لاوارث قرار دیا گیا ہے۔ڈھائی سالوں سے ایس آر ایس پی کے دومیگاواٹ بجلی کا انتظار کرنے والے صارفین کے اُمیدوں پر پانی پھیر دیا گیاہے۔ اوپر سے بار بار حکومتی اعلانات کہ’’ رمضان المبارک کے مہینے میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم کردیا گیا‘‘کے باوجود ضلع چترال میں بد ترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے عوامی نمائندے جھوٹے وعدے کرکے نہیں تھکتے،کم ولٹیج کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ایک ہفتے کاوقت دیتے ہیں اور وہ ایک ہفتہ مہینے اور سال گذرنے کے باجود نہیں آتا۔ایک طرف ملک میں بجلی کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے تو دوسری طرف چترال ٹاون کے لئے میسر دومیگاواٹ بجلی کو واپڈا والے صارفین کے لئے شیڈول بناکے تقسیم کرنے سے اب تک قاصر ہے۔واپڈا والوں پر کسی کا زور نہیں چلتا۔اب صارفین بجلی ٹاون صوبائی حکومت کے وزیر محمود خان سے سوال کرتے ہیں کہ ایک مہینے پہلے گولین کے مقام پر چترال ٹاون کے لئے دومیگاواٹ بجلی گھر جو افتتاح آپ نے کیا تھا وہ بجلی کہاں گئی ،اس کے بارے میں کسی سے کیوں نہیں پوچھا جارہا۔واپڈا والوں کا موقف ہے کہ ایس آر ایس پی کی بجلی گھر کی پیداور1200سے1300کلوواٹ ہے جبکہ ایس آر ایس پی کے زمہ داران کہتے ہیں کہ بجلی گھر کی پیداوار دومیگاواٹ سے زیادہ ہے ۔اب صارفین حیران وپریشان ہے کہ کس کی بات پر یقین کی جائے۔دو ہفتے پہلے کئی بار شیڈول بنایا گیا مگر کسی ایک پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔شیڈول کے مطابق ٹاون کے علاقوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے 24گھنٹے بجلی صارفین کو دی جائے گی مگراب کسی بھی علاقے کو 24گھنٹے بجلی نہیں ملی اگر ملی بھی ہے تو 3دنوں میں 10گھنٹے سے زیادہ کسی بھی علاقے کو نہیں ملی صارفین بار بار انتظامیہ کے پاس جاتے ہیں لیکن وہاں سے جھوٹی تسلیوں کے سوا اُنہیں کچھ نہیں ملتا اور نا اُمید لوٹ جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں روز ہ داروں کو بے جا تنگ کیاجارہا ہے عوام سڑکوں پر آنے کا پروگرام بنارہے ہیں،ضلعی انتظامیہ،ضلعی حکومت ،ایم این اے ،ایم پی ایز اورواپڈا والوں کواس کو ہلکا نہیں لینا چاہیئے اور آپس میں مل بیٹھ کر اس مسلئے کا حل نکالنا چاہیئے تا کہ ضلع چترال کا امن برقرار رہ سکے اور عوام کو اس رمضان المبارک میں سہولیات میسر ہو۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔