الوینہ اور اسکی ماں کی عید
…..سید الابرار مغلاندہ ……….
الوینہ بھائی کو تھیلا تھما کر کیچن میں ترکاری کاٹنے میں مصروف ہو گئی. اچانک ایک چیخ سی سنائی دی چاقو اسکے ہاتھ سے پلیٹ پر گر گیا دل اسکا بیٹھ سا گیا. بڑی مشکل سے ہمت باندھی بھاگ کر صحن کے پیچھے درخت کی طرف چلی گئی. کیا دیکھتی ہے کہ اسکا بھائی خون میں لت پت زمین پر پڑا زندگی کی آخری سانسیس گن رہا ہے. ایک ہولناک چیخ الوینہ کے دل سے نکلی، ماں میرا بھائی.! اپنے نحیف ہاتھوں سے بھائی کے خون آلود سر کو گود میں رکھا زبان پر کلمہ کے الفاظ بڑبڑانے کی بہت کوشش کی مگر ہچکیوں اور آہوں سے اسکا سانس تھم سا گیا ماں نے بھی آنے میں دیر کر دی الوینہ عبداللہ کی آنکھوں میں دیکھتی رہی لیکن عبداللہ کی آنکھوں سے بہن کا چمکتا ہوا چہرہ آہستہ آہستہ مدھم پڑ گیا اور یوں چھوٹی بہن کی گود میں جان جان آفرین کو سپرد ہوئ. یوں یہ ہنسا بستا گھرانہ ماتم کدہ بن گیا. ماں کے خواب بکھر گئے، بہنوں کی امیدیں جل گئی، بھائی کا بازو شل ہو گیا باب کا سہارا ٹوٹ گیا اور غریب کے آنگن سے روشنی کی آخری چنگاری ہمیشہ کے لیے بجھ گئی. رمضان کے باقی دن بھی گزر گئے کیسے گزرے کوئی جا کر عبداللہ کی ماں کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھییے الوینہ کی معصوم سسکیوں سے پوچھ لیجیے. وقت انکے لیے رک گیا گھڑی کی سوئی اب بھی اکیسویں رمضان کے پانچ بجے پر ٹک گئی ہے رمضان کے روزے دنیا والوں کے لئے ختم بھی ہوئے لوگوں نے عید بھی منالی پر الوینہ اور اسکی ماں کے لئے اکیسویں رمضان کے افطاری کا وقت نہیں آیا ماں اور بیٹی اب بھی عبداللہ کے درخت سے اترنے کی آس لگائے بیٹھی ہیں اور عبداللہ کے ہاتھ کے خوبانی کھائے بغیر غم کا روزہ نہ توڑنے کی قسم کھا رکھی ہیں.
دل کو یہ ضد ہے کہ اب عید مناؤں میں بھی
کوی اس دل سے کہے دل نہ جلائے میرا