الوینہ اور اسکی ماں کی عید

…..سید الابرار مغلاندہ ……….

گرمی کی شدت میں کمی واقع ہو گئی تھی سورج پہاڑوں کے اوپرڈھلنے لگا تھا.عبداللہ نے ماں سے تھیلا مانگا تاکہ افطاری کے لیے درخت سے خوبانی اتار سکے. ماں نے منع کیا. ” بیٹا، ہمیں خوبانی نہیں چاہئے، رمضان میں درخت پر چڑھنا آسان نہیں، تم درخت کے نازک تنوں پر چڑھ کر میری جان نکال دیتے ہو”عبداللہ نے الوینہ کو آواز دی. الوی! تھیلا زرا لے آنا؛ ہرچھوٹی بہن کی طرح الوینہ بھائی کی گرویدہ تھی. بھایی کا حکم ٹال نہیں سکی. عبداللہ اور الوینہ کی عمروں میں چار سال کا فرق تھا. الوینہ آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی اورعبداللہ کے میٹرک کے ریزلٹ رمضان کے آخر تک متوقع تھے. عبداللہ اپنے والدین کا چھوٹا بیٹا تھا. گھر کی غربت نے بڑے بھائی کے لیے میٹرک سے آگےکی تعلیم مسدود کر رکھی تھی. تین سالوں سے ورک شاپ میں کافی کام سیکھ چکا تھا اور گاڑیوں کا آدھا میکینک بن کر باپ کے کندھوں سے اخراجات کے بوجھ کو ہلکا کرنے میں لگا ہوا تھا. عبداللہ، اسکا بھائی اور اسکی سات بہنیں باہمی شفقت و محبت کی زندگی گزار رہے تھے گو کہ گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے گھر میں چین اور زہنی آسودگی ضرور تھی. عبداللہ زہین اور محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ماں باب کا فرمانبردار بھی تھا.ایک دن ماں کا ہاتھ چوم کر یہ کہنے لگا . ماں! دو تین سالوں کی بات ھے میٹرک میں میرے نو سوسے زیادہ نمبر آنے والے ہیں میں ایف ایس سی کے بعد انشاءاللہ فوج میں کمیشن لونگا. میرا ٹیچر کہتا ہے تم ابھی سے مجھے میجر لگتے ہو تم ضرور فوجی افسر بنو گے.ماں! ایک دن میں تمہارے سارے خوابوں کی تعبیر تمہاری جھولی میں ڈال دوں گا”

الوینہ بھائی کو تھیلا تھما کر کیچن میں ترکاری کاٹنے میں مصروف ہو گئی. اچانک ایک چیخ سی سنائی دی چاقو اسکے ہاتھ سے پلیٹ پر گر گیا دل اسکا بیٹھ سا گیا. بڑی مشکل سے ہمت باندھی بھاگ کر صحن کے پیچھے درخت کی طرف چلی گئی. کیا دیکھتی ہے کہ اسکا بھائی خون میں لت پت زمین پر پڑا زندگی کی آخری سانسیس گن رہا ہے. ایک ہولناک چیخ الوینہ کے دل سے نکلی، ماں میرا بھائی.! اپنے نحیف ہاتھوں سے بھائی کے خون آلود سر کو گود میں رکھا زبان پر کلمہ کے الفاظ بڑبڑانے کی بہت کوشش کی مگر ہچکیوں اور آہوں سے اسکا سانس تھم سا گیا ماں نے بھی آنے میں دیر کر دی الوینہ عبداللہ کی آنکھوں میں دیکھتی رہی لیکن عبداللہ کی آنکھوں سے بہن کا چمکتا ہوا چہرہ آہستہ آہستہ مدھم پڑ گیا اور یوں چھوٹی بہن کی گود میں جان جان آفرین کو سپرد ہوئ. یوں یہ ہنسا بستا گھرانہ ماتم کدہ بن گیا. ماں کے خواب بکھر گئے، بہنوں کی امیدیں جل گئی، بھائی کا بازو شل ہو گیا باب کا سہارا ٹوٹ گیا اور غریب کے آنگن سے روشنی کی آخری چنگاری ہمیشہ کے لیے بجھ گئی. رمضان کے باقی دن بھی گزر گئے کیسے گزرے کوئی جا کر عبداللہ کی ماں کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھییے الوینہ کی معصوم سسکیوں سے پوچھ لیجیے. وقت انکے لیے رک گیا گھڑی کی سوئی اب بھی اکیسویں رمضان کے پانچ بجے پر ٹک گئی ہے رمضان کے روزے دنیا والوں کے لئے ختم بھی ہوئے لوگوں نے عید بھی منالی پر الوینہ اور اسکی ماں کے لئے اکیسویں رمضان کے افطاری کا وقت نہیں آیا ماں اور بیٹی اب بھی عبداللہ کے درخت سے اترنے کی آس لگائے بیٹھی ہیں اور عبداللہ کے ہاتھ کے خوبانی کھائے بغیر غم کا روزہ نہ توڑنے کی قسم کھا رکھی ہیں.

دل کو یہ ضد ہے کہ اب عید مناؤں میں بھی
کوی اس دل سے کہے دل نہ جلائے میرا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔