کے پی میں تحریک انصاف۔۔ توقعات اور چند تجاویز

پروفیسر رحمت کریم بیگ

karimbaigcl@yahoo.com

……
2013ء کے انتخابات میں کے ۔پی۔ کے میں تحریک انصاف کی حکومت بر سر اقتدار آنے کے بعد عام آدمی کا یہ خیال تھا کہ بس دنوں یا ہفتوں میں صوبے کی تقدیر بدل جائیگی اور سارا نظام خلفائے راشدین کے نمونے پر آجا ئیگا اور یہ ایک عام آدمی کا سوچ تھا جو نہایت سطحی اور احمقانہ تھا، ۔ گزشتہ پینسٹھ سال کے گندھ کو ہفتوں یا مہینوں میں راہراست پر لانا موجودہ قانونی نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں البتہ کوئی سچا انقلابی لیڈر تمام اختیارات پر قبضہ کرکے تمام بد عنواں عناصر کو پکڑ کر اور ان کو ان تمام مالی بدمعاشیوں پر پھانسی دیکر کسی حد تک صفائی کر سکتا ہے جو ایک منتخب صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی اس لئے عوام کا تحریک انصاف سے دل برداشتہ ہونا کہ انصاف ان کے تمام نعروں کے متناسب نہیں ہے زیادہ وزن نہیں رکھتی۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور کے مطابق اصلاح احوال کی مخلصانہ کوشش شروع کی جو اب بھی جاری ہے بعض محکموں میں بڑی حد تک تبدیلی لائی جاچکی ہے، اختیارات کو گاؤں کی سطح تک منتقلی کا عمل بلدیاتی انتخا با ت کے بعد مکمل کرلی گئی ہے اب جتنا ویلج کونسل با اختیار ہے ایسا پہلے کبھی نہیں تھا یہ تبدیلی دیکھی جارہی ہے مگر اس کو تبدیلی نہیں سمجھا گیا ہے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اس پارٹی کی قیادت فعال ہے۔
پولیس اور دوسرے محکموں میں بھی کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے مگر پولیس کا وہ اہلکار جو برسوں سے ایک نرالے سوچ کے ساتھ عوام کو ڈیل کرنے کا عادی تھا اب کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ایک لمحے کے لئے سوچ کر قدم اٹھانے پر مجبور ہے چاہئے قدم وہی پرانی عادت والی اٹھائے یا نئے نہج پر، اسی طرح این ٹی ایس کو گریجویٹ نوجوانوں پر ٹھونس کر اصلاح حال کی کوشش کرنے کا دعوی بھی ہورہا ہے جس میں ایک ضلع کے بیروزگار گریجویٹ کا آپشن پانچ سکولوں تک محدود کرکے اس کا حق مارا جارہا ہے حالانکہ ایک ضلع کا سکونتی ہونے کے حوالے سے وہ گریجویٹ اپنے ضلع کے اندر تمام پوسٹوں کے لئے ایپلائی کرنے کا حقدار ہے مگر اس سے یہ حق چھین کر پانچ سکولوں تک محدود کرکے اس کے بنیادی حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور یہ پالیسی انتہائی قابل مذمت ہے اور میں چیف جسٹس پشاورہائی کورٹ کو اس پر سو موٹو ایکشن لینے کی استدعا کرتا ہوں جس میں ہزاروں بیروز گاروں کا حق مارا جا رہا ہے۔ اسی NTS میں بہت گند موجود ہے جسے انکھیں بند کرکے نافذکیا گیا ہے۔
و یلج کونسل لیول کے فنڈز کو ٹینڈر کے عمل سے گذار کر ان ٹھیکہ ڈاروں کو دیا جارہا ہے جو وہ کام خود انجام دینے کی بجائے دوسرے آدمی کو بیچ کر اس فنڈ سے کافی رقم اپنی جیب میں ڈال کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ دوسرا سب کنٹرکٹر کسی تیسرے منحوس کو بیچ کر اسی فنڈ سے مزید بٹور کر اس چھوٹے سے منصوبے کو انتہائی ناقض کرکے چھوڑ جاتا ہے اور اس کا م کا سرکاری نگران عملہ ان کی اس گھٹجور میں راضی نظر آتا ہے اس قسم کے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کو سب لٹ کرنے پر قدعی پابندی ہونی چاہئے اور ایسی ٹھیکہ داروں کو بلیک لسٹ کر دینا چاہئے۔
سکو لوں کی اصلاح کی نظام کے سلسلے میں راقم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ بنیاد پر ائیمری سکول سے شروع کرکے کامیابی ہوسکتی ہے اس میں :
۱۔ ہر پرائمری سکول میں سات کمرے، باتھ رومز اور سات اساتذہ کی ضرورت ہے اور مردانہ پرائمری سکولوں میں بھی خواتیں کی empowerment کے حوالے سے خواتیں اساتذہ مقرر کئے جائیںَ آپ ایک پرائمری سکول میں سات اساتذہ کے خیال کو ایک ناقابل عمل سوچ قرار دے سکتے ہیں لیکن نظام تعلیم کو صحیح معنوں میں ا علی درجے پر لانے کے لئے ہر کلاس کے لئے ایک ٹیچر اور ایک کمرہ لازمی ہے اور ایک کمرہ آفس کے لئے لازمی ہے اس میں عیاشی والی کوئی بات نہیں۔
۲۔ اساتذہ کی ڈیوٹی پر حاضری کے موجودہ نافذ شدہ نظام کو مزید سخت کیا جائے۔
۳۔ تمام پرائیمری سکولوں میں اسلا میات کے ختم کردہ پوسٹوں کو از سر نو بحال کر کے وفاق المدارس سے فارغ شدہ علماء کا تقرر کیا جائے تا کہ بچے بنیادی دینی تعلیمات سے مستفید ہوں اور اس طرح ہمارے نئی نسل کے فارع شدہ جدید علوم سے اراستہ نوجواں علماء کو روزگار ملے گی اور وہ مایوس ہونے کی بجائے معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں یہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے اس تقرر میں پرایؤیٹ ایم۔ اے اسلامیات والوں کا تقرر نہیں ہونا چاہئے کہ ہم نے ان کو فا ئنل کے viva میں ناظرہ قرآن پڑھنے میں ناکام دیکھا ہے۔جو ہمارے سامنے گذر چکا ہے، اس پوسٹ کے لئے وفاق المدارس کے گریجویٹ ہی بہترین امیدوار ہوسکتے ہیں۔
۴۔ پرانے ریاستی نظام کے قوانین کی روشنی میں میں یہ بھی تجویز کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر ویلج کونسل کو بنیاد بناکر اس میں واقع تمام جامع مساجد کے خطیبوں کو اوقاف کے انداز میں ماہوار معقول اعزازیہ دیا جائے جو تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک اچھی کریڈت ہوگی اور پی۔ٹی۔ آئی پر عوام کا اعتماد پختہ ہوجائیگا یہ نظام ریاست چترال میں غلہ کی سالانہ ادائیگی کی شکل میں 1969 ء تک رائج تھا اس وقت یہ ایک نظام تھا جو آج کل معاشرتی بد نظمی کا شکار ہوچکا ہے اور ہر بد نظمی سماج کے لئے زہر قاتل ہوتا ہے۔
۵۔ پچھلے دو سالوں کے دوراں یونیورسٹی سے فارغ پوسٹ گریجویٹس کو پندرہ ہزار الاؤنس دیا جائے کہ اس دوراں وہ اپنے لئے روزگار تلاش کر سکیں۔
۶ ۔ تمام نئے اساتذہ کو تقرر کے بعد مگر ڈیوٹی پر لگانے سے پہلے سرکاری طور پر دو سال تک مکمل تعلیم و تعلم کی اور سکول ارگنائزیشن کی تربیت دی جائے۔ اور یہ تربیت سچ مچ معیاری تربیت ہو۔
۷۔ سکولوں کے اساتذہ کی بھرتی کی ابتدائی عمر پچیس سال مقرر کی جائے کہ اتنی عمر میں وہ یونیورسٹی سے فارع ہوتے ہیں اور تھوڑا سنجیدہ بھی ہوتے ہیں اور ایک ٹیچر کا سنجیدہ ہونا طلباء کی بہتر تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے بجائے ایک ناپختہ غیر سنجیدہ اٹھارہ سالہ ٹیچر کے۔ کیونکہ طلباء کی اصلاح کا کام سنجیدہ لوگوں کا کام ہے جن میں کافی شعور پیدا ہوچکی ہو ایک گریجویٹ کو صحیح ٹیچر بنانے کا کام کوئی آسان کام نہیں ہے اس پر پوری سنجیدگی سے محنت ہونی چاہئے ۔ اور اس طرح ان اساتذہ کو پنشن کی عمر ساٹھ کی بجائے ستر سال تک بڑھانی چاہئے یا ان کو آ پشن optionدینا چاہئے کہ وہ اپنی مرضی سے ریٹائرمنٹ لے لیا کریں تاکہ وہ اپنی قیمتی تجربے سے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنی عمر کا نچوڑ ادارے کو منتقل کرے ۔ یہ چیز ایک دفتری کلرک کے کام کی نوعیت کی چیز نہیں ہے جو اپنی فائیل کو رات کے کسی بھی وقت کسی دوست کی مدد سے مرمت کرکے اپنا کام مکمل کرلیتے ہیں اور اس قسم کے ملازم کو ایک استاذ کے ساتھ ایک ہی ڈنڈے سے ناپنا تعلیمی عمل کے ساتھ زیادتی ہے۔
۸۔ اساتذہ کو ایک خصوصی بیج یا گاؤن پہنے کی تربیت بھی دوران ٹریننگ دی جائے جس سے معاشرے میں ان کی شخصیت نمایاں ہو۔
۹۔ ہر سرکاری ملازم کو بھرتی کرتے وقت سکاؤٹ اور پو لیس کی طرح قرآن پاک پر ایک پر وقار تقریب میں حلف لیا جائے کہ وہ کسی بھی قسم کی غفلت، اخلاقی گراوٹ، کام چوری، بدعنوانی، اقرباء پروری، جانبداری وغیرہ سے بالا تر ہو کر اپنے فرائیض بجا لائیں گے اور ان کو بانڈ پر پابند کیا جائے۔ اور پچیس سال کے اوپر کسی بھی تربیت یافتہ استاذ کو کسی بھی مرحلے پر کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جائے۔ ٹیچر بھرتی کرنے کے لئے عمر کی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے
۱۰۔ موجودہ امتحانی نظام میں ٹھیکہ ڈار قسم کے اساتذہ پر اگلے پانچ سال تک امتحانی ڈیوٹی پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
۱۱۔ ہر سرکاری ملازم کو ہر پانچ سال بعد محکمانہ امتحان پاس کرنے کا پابند بنایا جائے تاکہ وہ اپنی استعداد کار میں بہتری لانے کی کوشش کریں۔
موجودہ صوبائی محکموں میں اصلاح احوال کی بہت ضرورت ہے اور چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بہتری کی گنجائش موجود ہے اور عملدرآمد کا مرحلہ مستعدی کا متقاضی ہے ہم نے بہت سے اداروں کو بہتر سے بد تر ہوتے اور کئی ایک کو بد سے بہتر ہوتے دیکھا ہے کہ ہم نے اس وقت عام انتخابات میں سرکاری ڈیوٹی انجام دی تھی جب جنرل یحییٰ خان دسمبر 1970 ء میں ملک کی تقدیر بدلنے پر خود کو قادر سمجھ رہا تھا ۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔