وادی لٹکوہ، ایک شہر نا پرسان

زکریا ایوبی
سترہ جولائی کی صبح جب دفتر پہنچا تو چترال سے آنے والی بری خبر میرے منتظر تھی جو پاناما کے ہنگامے میں کہیں دب کر رہ گئی تھی۔ خبر یہ تھی کہ وادی ارکاری سے آنے والی گاڑی کو بلچ کے مقام پر حادثہ پیش آیاہےجس میں ایک جان بحق آٹھ لاپتہ ہیں جبکہ سات کو بچا لیا گیا۔ خبر پڑھ کر طبیعت بوجھل ہوگئی۔ متعلقہ افراد سے کہہ کر حادثے کی خبر چلانے کی کوشش کی لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے حکومت اور اپوزیشن کے جلوے تھے تو دو دراز کے کسی گاؤں میں آٹھ لوگوں کی زندگی کیا معنی رکھتی تھی لہذا خبر نہ چل سکی۔ دل گرفتہ ہوکر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا تو گزشتہ سال کا وہ منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیاجب اسی مقام پر گرم چشمہ سے آنے والی گاڑی دریا میں جا گری تھی اور متعدد افراد لاپتہ اور جان بحق ہوگئے تھے۔ میرا اپنا کزن بھی ان بد قسمت مسافروں میں شامل تھا جن کی لاش آج تک نہیں ملی اور ان کی ماں آج بھی چترال کے راستے پر آنکھیں جمائے رہتی ہے کہ شاید کسی دن ان کے بیٹے کی لاش گھر آئے گی اور وہ اپنے بچے کا آخری دیدار کر سکے۔ ہوش و حواس والے شخص کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیے وہ حادثہ کافی تھا۔
اس وقت گرم چشمہ کی عوام کو لگا تھا کہ شاید اس حادثے کے بعد چترال کے نمائندوں کو ہوش آجائے گا۔اور چیو پل سے گرم چشمہ جانے والی سڑک کے ابتدائی چند سو میٹرز میں توسیع کی جائے گی تاکہ آئندہ کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے۔ لیکن ہمارے نمائندوں نے توسیع تو دور کی بات، وہاں کوئی حفاظتی دیوار کی تعمیر کے لیے بھی پیسے مختص نہیں کیے۔
ہمارے ایم این اے صاحب گرم چشمہ صرف اس وقت گرم چشمہ جاتے ہیں جب الیکشن قریب آتے ہیں لیکن ائیرپورٹ تو وہ مہینے میں کئی بار جاتے ہونگے۔ ان کو اس سڑک کی خوفناکی کا بھی پتہ ہوگا۔ وہ گزشتہ سال کے حادثے کے بارے میں بھی جانتے ہونگے۔ میں حیران ہوں کہ ان کے ذہن میں ایک بار بھی یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ اس سڑک کو تھوڑی کھلی کرکے بنانی چاہے تاکہ دوگاڑیاں آرام سے ایک دوسرے کو کراس کر سکیں۔ گرم چشمہ کے لوگوں کے لیے نہ صحیح اپنے لیے ان کے ذہن میں یہ خیال کیوں نہیں آیا کیونہ وہ جب بھی اسلام آباد سے گھر جاتے ہیں اسی راستے سے جاتے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ کسی اور کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے لیکن حادثے کی آنکھیں تھوڑی ہوتی ہیں جو دیکھ کر آئے۔
ہمارے ایم پی سلیم خان صاحب، دو مرتبہ اسمبلی پہنچے صرف اور صرف گرم چشمہ کے لوگوں کے ووٹوں سے، اگلی دفعہ ایم این اے یا ایم پی اے بننے کے لیے پھر میدان میں آئیں گے صرف اس بھروسے پر کہ گرم چشمہ کے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ وہ تو اس وادی کے رہنے والے ہیں۔ ان کو تو موت کے اس کنواں کا پتہ ہے۔ وہ ہر بار گھر جاتے ہوئے اس راستے سے گزرتے ہیں۔ ان کو یہ خیال کیوں نہیں آیا۔ چلو مان لیا کہ ان کے پاس فنڈز کی کمی تھی، لیکن پچھلی بار وہ وزیر بھی تو رہے تھے۔ صوبہ اور مرکز دونوں میں ان کی پارٹی کی حکومت تھی۔ اس وقت ان کو یہ خیال کیوں نہیں آیا۔ چلو گزشتہ آٹھ سال ان کو معاف، گزشتہ سال کے حادثے ک بعد تو ان کی آںکھیں کھل جانی چاہیے تھیں۔ وہ سڑک کی توسیع نہیں کر سکتے تھے تو کم از کم حفاظتی دیوار توتعمیر کروا سکتے تھے۔ آبادی کو چیر کر اور لوگوں کو بے گھر کرکے اپنے گھر کے لیے سڑک بنانے کے لیے ان کے پاس پیسے ہیں تو اس چھوٹے سے منصوبے کے لیے کیا ان کےپاس فنڈز نہیں تھے؟
فنڈز ان کے پاس تب بھی تھے جب وہ وزیر بنے تھے اور اب بھی ہیں۔ نہیں ہے تو صرف لوگوں کی جانوں کی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے سامنے جانوں کی اہمیت ہوتی تو گزشتہ ایک سال میں اس مقام پر حفاظتی دیوار تو بن سکتی تھی۔ آج میں دیکھ رہا تھا کہ وہ جائے حادثہ میں بذات خود موجود تھے۔ ان کو وہاں ہونا بھی چاہیے لیکن کیا صرف ان کا وہاں موجود ہونا کافی ہے؟ کیا ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا کہ وہ چاہتے تو اس طرح کے حادثات روک سکتے تھے۔ اب وہ ارکاری کا دورہ کریں گے اور مرحومین کے لواحقین سے تعزیت بھی کریں گے جس طرح گزشتہ سال انہوں نے گرم چشمہ میں ہر گھر میں الگ الگ جا کر تعزیت کی تھی۔ وہ گرم چشمہ روڈ کی توسیع کا وعدہ بھی کریں گے لیکن نہیں کریں تو صرف اتنا کہ اس طرح کے حادثوں کی روک تھام کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کریں گے۔
ضلعی انتظامیہ بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ ہمارے ضلع ناظم گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو برادریوں میں تقسیم کرنے کے لیے تقریریں کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کے مفاد کا کوئی کام نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ صرف باتیں کر سکتے ہیں کام کرنے کی حیثیت نہیں ہے۔ ان پر ڈاکٹر ویرو کا وہ مشہورڈائیلاگ صادق آتا ہے جووہ رانچھو کو کہتا ہے کہ ’’تم صرف بے وقوف بنا سکتے ہو، انورٹر نہیں ‘‘۔ مغفرت شاہ صاحب بھی بس بے وقوف بنانے کے لیے منتخب ہوئے ہیں کام کرنے کے لیے نہیں۔
اب ہمارے موجود ہ نمائندے اور آنے والے متوقع نمائندے وادی ارکاری کا رخ کریں گے۔ لوگوں کے غم میں شریک ہونے کا جھانسہ دے کر اپنی الیکشن مہم چلائیں گے، تارے توڑ کر لانے کے وعدے کریں گے اور ہم اتنے معصوم ہیں کہ دوبارہ ان کی باتوں پر آئیں گے۔ اس کے بعد یہ چہرے صرف اس وقت دکھائی دیں گے جب الیکشن قریب ہونگے، یا پھر اللہ نہ کرے ایسے ہی کسی حادثے کےموقع پر۔ لوگوں کا کیا ہے؟لوگ یوں ہی مرتے رہیں گے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔