رُموز شادؔ ۔۔ قاری ذاکر اللہ مرحو م کی شخصیت و کردار

۔۔ تحریر بقلم۔۔ ارشاد اللہ شادؔ ۔۔ بکرآباد چترال

’’قاری ذاکر اللہ مرحوم کی شخصیت وکردار ‘‘
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ علم دنیا سے اٹھ جائے گا ، علم اس طرح اٹھ جائے گا کہ علماء دنیا سے اٹھائے جائیں گے ۔ روز افزوں کسی بھی بہت بڑے عالم کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر ہوتی ہے۔ کسی سیانے نے سچ کہا ہے کہ دنیا میں پہلے آسمان تلے ، خاکی زمین کے اوپر دو طرح کے آدمی رہتے ہیں ۔ ایک وہ جو مٹی میں مل کر خاک ہو جاتے ہیں اور ایک وہ کبھی نہیں مرتے ۔ ہر فرد زندگی کے سٹیج پر اپنا تماشہ دکھا کے چلا جاتاہے ۔ کسی کی اداکاری دل پر نقش چھوڑ جاتی ہے اور کسی کے سامنے سے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ روز نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں ، پُرانے مر جاتے ہیں ، لیکن چند لوگوں کے نام باقی رہ جاتے ہیں ۔ عربی کا مقولہ ہے !
’’الموت قدح کل نفس شاربوھا
والقبر باب کل نفس داخلوھا‘‘
مولانا قاری ذاکر اللہ مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ بولتے وقت آپ کے لفظوں کا انتخاب اور جملوں کا حسن آفرینی سُننے والوں کو اپنی طرف جذب کر لیتی تھی ۔ جس طرح صبح کے وقت چہکتے مہکتے گلاب کے پھولوں کے شبنم کے نرم ونازک قطر ے اُ ن کی رعنائی و زیبائی میں اضافہ کردیتے ہیں ۔ اسی طرح مولانا قاری ذاکر اللہ صاحب کا مسحور کن لب و لہجہ تاروں بھری رات میں قمری نور کی رنگ بھر دیتا ہے ۔ موصوف نے ہمیشہ حق و صداقت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
’’ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویرا ن کر گیا‘‘
اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر یہ بڑا کرم ہے کہ ہر دور میں وہ اپنے دین کی حفاظت، تبلیغ ، اشاعت اور دفاع کا کام اپنے منتخب بندوں سے لیتا رہا ہے ۔ حضرت مولانا قاری ذاکر اللہ نوّر اللہ مرقدۂ کا شمار ایسے ہی علماء حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح میں صرف فرمائی ۔ دوست تو دوست دشمن بھی ان کے کردار کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ ذاتی اوصاف سے مولانا صاحب ایک بلند پایۂ انسان تھے ۔ ہر لخطہ مسکرانے کی عادت ، مزاج میں نرمی ، طبیعت میں انکساری ، استقامت ، عزیمت ، علم، حلم و وقار ، تدبر، فراست، ذہانت او ر اخلاق کو گوندھ کر اگرانسانی وجود تیار کیا جائے تو وہ حضرت مولانا قار ی ذاکر اللہ نور اللہ مرقدہ ہو ں گے ۔
حضرت صاحب کی انتہائی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ دینی اور علاقائی مصروفیات میں اس درجہ انہماک کے باوجود ان کی علمی استحصار ، اور علمی ذوق پوری طرح برقرار رہا۔ جب کسی علمی مسئلے کی بات آتی تو معلوم ہوتا کہ اس کے تما م مالہ وما علیہ پوری طرح موصوف کے نگا ہ میں ہے اور جب اس موضوع پر بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی علمی کتاب کا درس ہو رہا ہے ۔ موصوف صرف عالم ہی نہ تھے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ ہرفن مولا تھے اور جو بھی کام کرتے تھے ایک سلیقے او ر اچھے انداز سے کرتے تھے۔موصوف کے دینی اور علاقائی خدمات ہمیشہ یاد رکھا جائے اور کے زندگی کے تمام گوشے ہمارے لیئے مشعل راہ ہوں گے۔
بہر حال آپ کی پوری زندگی خدمت اسلام میں گزری اور نہایت لطیف مزاج کے مالک تھے اور آپ کا ہم سے جدا ہونا ایک صبر آزما سانحہ ہے جس میں چشم ماتم گسار خدا جانے کب تک اشکبار رہے گی اور موت کے ظالم ہاتھوں نے ایک ایسی ہستی کو ہم سے جدا کردیا جس سے تمام لوگ ہدایت حاصل کرتے تھے ۔
’’ قبائے نور سے سج کر لہو سے باوضو ہو کر
وہ پہنچے بارگاہ حق میں کتنا سرخرو ہو کر ‘‘
تعلیم : مولانا صاحب اپنی تعلیم کا آغاز اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی ، اسکے بعد کراچی کے عالمی شہرت یافتہ درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی سے سند فراغت حاصل کی ۔
سیاسی سرگرمیاں : مولانا صاحب کا ابتداء ہی سے تعلق جمعیت علماء اسلام سے رہا اور آپ جمعیت علماء اسلام کیلئے ہر قسم کی خدمات سر انجام دیتے تھے۔
وفات حسرت آیات : اسبدی قانون کے مطابق حضرت مولانا قاری ذاکر اللہ صاحب 6جولائی 2017 ؁ ء بروز جمعرات تبلیغی اجتماع کے حوالے سے اپر چترال جار ہے تھے ، بد قسمتی سے گاڑی حادثہ کا شکار ہوگیا ، اور موقع پر ہی حضرت مولانا قاری ذاکر اللہ صاحب اس دار فانی سے دار مفارقت دے گئے۔
’’اے فرشتہ اجل کیا تیری خوب پسند ہے
پھول تو نے وہ چُنا جو گلشن کو ویران کر گیا ‘‘
پسماندگان : مولانا موصوف کے پسماندگان میں 4بیٹے 3بیٹیاں اور ہزاروں معتقدین شامل ہے۔ مولانا صاحب کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اُن کے چاروں بیٹے حافظ القرآن ہیں اور دو بیٹے عالم ہے۔ اور بیٹیاں بھی سارے علم دین حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔
حرف آخر: آج بھی ہم اپنے محترم استاد حضرت مولانا قاری ذاکر اللہ نوّر اللہ مرقدہٌ کا ذکر بہت ہی محبت ، ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے انہیں اپنی آغوش میں بلا لیا ہے ، ہم اکیلے رہ گئے، تیری عاقبت بخیر ہو، وہ مجھے بہت یاد آتا ہے اللہ اُن کی مرقد پر اپنے انوار کی بارش برسائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
’’ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘
اُن کے جسد خاکی کو الوداع کہنے اور نماز جنازہ میں شرکت کیلئے مقامی افراد کے علاوہ دو ر دراز علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے ۔ جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت اس امر کی غماز تھی کہ وہ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے ۔ جنازہ کے موقع پر اس قدر رش ہوا کہ قرب و جوار سے آنے والوں کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک بلاک رہی ۔ نماز جنازہ کی امامت قاری صاحب مرحوم کے بڑے بیٹے مولانا عطاء اللہ صاحب نے پڑھائی۔ اس کے بعد مولانا کی جسد خاکی کو اس کے آبائی گاؤں بکرآباد میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ وہ ایک اصول پرست شخصیت تھے جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔آج ہم میں وہ دائمی حق کا پہاڑ موجود نہیں ہے ، وہ چودھویں چاند کی طرح مسکراتا چہرہ موجود نہیں، اگر ہیں تو اُ ن کی باتیں یا پھر لو دیتی ہوئی یادیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہے کہ انہیں اپنی جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور انہیں اپنا قربت عطا فرمائیں اور حور عین سے انکا نکاح فرمائیں اور انبیاء، صدیقین اور بدر احد کے شہداء کی رفاقت نصیب فرمائیں اور ان کے اہل و عیال ، متعلقین اور دیگرجملہ افراد کو صبر جمیل عطا فرمائیں ۔آمین
قلم ایں جا رسید و سر بشکست….!!

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔