جشن شندوراور وی آئی پی کلچر۔ اللہ میری توبہ

                                  عمران الہی دنین چترال                                                                             

 شندور پولو ٹورنامنٹ 1936ء سے چترال اور گلگت بلتستان کے پولو کے ٹیموں کے مابین کھیلا جا رہا ہے اور سنہ 1980 کے بعد اسے مستقل میلے کا درجہ مل گیا جسے دیکھنے کیلئے ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں۔ خوبصورت پہاڑوں ، سرسبز میدانوں، شفاف نیلگوں پانی کی نہروں اور پھولوں میں گھرے اس علاقے کی خوبصورتی کشاں کشاں لوگوں کو دنیا بھر سے کھینچ لاتی ہے۔ شائد یہی وہ میلہ ہے جو چترال کی ثقافت، تہزیب و تمدن اور یہاں کی امن پسندی کو بین الاقوامی دنیا میں روشناس کرنے کا سبب بنا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے پہلے تویہ عالم تھا کہ دوسرے ملکوں سے آیے ہویے بیشتر سیاح کو مقامی لوگ بلا معاوضہ اپنے گھروں میں بطور مہمان ٹھراتے تھے جو ان سیاحوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے نقش چھوڑ جاتا۔ اسی میلے کی وجہ سے مقامی لوگوں کا غیر مقامی سیاحوں سے میل ملاپ اور روابط بنتے گئے جو چترال جیسے غریب اور پسماندہ علاقے کے عوام میں شعور و آگاہی کا سبب بنا۔۔

 گزشتہ چند سالوں سے جشن شندورکی رونقیں ماند پڑتی جا رہی ہے جس کی ایک وجہ “شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری” کا کلچرکا بےتہاشا فروغ ہے اور ایک عمومی تاثر بنتا جا رہا ہے کہ “شندور تو بوغدو دی پشیمان- نو بوغدو دی پشیمان” اس حوالے سے مقامی افراد کے جزبات کوتو ایک طرف، غیر مقامی مہمانوں سے بھی ہمارا جب کبھی تبادلہ خیال ہوتا ہے تو وہ شندور میں رایج وی آیی پی کلچر سے نالاں نظرآتےہیں جس کی چند بنیادی وجہ جا بجا بنایے گیے “نو گو ایریاز”، “خار دار تاریں” اور سکورٹی پر مامور نیم فوجی دستے اور پولیس اہلکار جو “ڈندے کی زباں” سے سے سیاحوں کی “رہنمائی” کرتے نظر آتے ہیں جسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے اس “چراگاہ” میں موجود ” سماجی جانوروں” کو ہانکا جا رہا ہو۔ گراونڈ میں پرآرائش اور پر آسائش حصے پر صرف “مخصوص” افراد کا حق اور “مینگو پیپلز” کے حصے میں پتھریلی زمین اور سوکھی گھاس۔ میچ کے دوران ثقافتی شو جس میں کسی زمانے میں گلگت بلتستان کے فنکار بڑے فخر سے دل لگا کے اپنے فن کا جادو جگاتے تھے آجکل”یہاں ناچتا کوئی اور ہے” ۔

بہرحال۔۔۔۔ وطن پاکستان جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور قائداعظمؒ نے اس خواب کی تعبیرکیلئے انتھک محنت کی۔ اس ملک خدادا کی جغرافیائی حدود میں اضافے کے لئے چترال کے ہمارے بزرگوں نے بھی لازوال قربانیاں دیں جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ یہ سب اسلئے تھا کہ ایک ایسا ملک قائم کیا جاسکے یہ بات الحمدُ للہ بہت حد تک درست ثابت ہوچکی لیکن کچھ عناصر وی آئی پی کلچر کو فروغ دیکراس ملک میں بسنے والے عام شہریوں کو یہ احساس دلارہے ہیں کہ وہ ان کے سامنے کیڑے مکوڑوں کی مانند ہیں۔ لیکن اس حقیقت کا اندازہ صرف وہی لوگ لگاسکتے ہیں جو براہ راست اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو ہماری سیاسی قیادت (بلخصوص پاکستان تحریک انصاف) کو جب بھی وی آئی پی کلچر پر بولنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اپنے اپنے انداز گفتگو سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ وی آئی پی کلچر کے بہت بڑے مخالف ہوں۔ لیکن بعد میں وہی لوگ ایک لمبے چوڑے پروٹوکول میں گھروں سے نکلتے ہیں اور اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ کی نفی کررہے ہوتے ہیں۔چترال میں بسے ایک سادہ لوح عام آدمی کا بھی یہی سوال ہے کہ ہمارے بزرگوں کی قربانیاں اسی لیے تھی کہ ہم “دور بادشاہی” سے آزادی کے بعد کسی مخصوص طبقے کی غلامی کریں گے ؟ عام آدمی کو بھی یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ پورے وقار سے اس ملک میں زندگی بسر کرسکے اور بلکل ان ہی وسایل اور سہولیات سے بہرہ ور ہو سکے جو شندور جیسے دور افتادہ مقام پر “بڑے صاپ” کی لئے میسر ہیں  ۔ اس ملک سے عام و خاص کا فرق ختم ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ۔ فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا تھا ۔

”دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے…….. لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے”۔

اس سلسلے میں اگر کوئی موثر اقدام اٹھا سکتے ہیں تو چترال کی ضلعی انتظامیہ کے تین ہی سرکاری زمہ دار افسران  ہی یہ اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ یہ افسران یعنی ڈپٹی کمشنر، کمانڈنٹ چترال سکاوٹس اور ڈی پی او صاحبان جو شندور کے ماحول کو پر امن، سیاح دوست اور ہرقسم کی  سماجی تعصبات سے پاک کر کے ہمارے مسلح افواج اور ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد مزید پختہ کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتےہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم گزارش کہ ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کی پبلک ڈیلنگ اور سیاحوں کی رہنمائی کے حوالے سے بنیادی ٹرینگ کرانی ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ وزارت سیاحت کی طرف سے جاری کردہ ایس او پی پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔

 اگر ہم حقیقی معنوں میں چترال میں سیاحت کو فروغ اورترقی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً وی آئی پی کلچر کے نام سے منسوب اس طبقاتی فرق کو مٹانا ہوگا ورنہ 1220فٹ کی بلندی پر ڈندہ کھانے اور مخصوص علاقوں تک محدود ہونے کے لیے کوئی اتنا لمبا سفر طے کرکے نہیں آئے گا۔   

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔