دھڑکنوں کی زبان …. ’’سو حقیقتیں ایک افسانہ‘‘

………..محمد جاوید حیات………..
حیران ہونگے کہ چھوٹا سا لکھاری ایک عظیم لکھاری کا موضوع بدل رہا ہے ۔۔ عظیم لکھاری کا موضع ’’ایک حقیقت سو افسانے ‘‘ تھا جب کہ یہ چھوٹا اس موضوع کے الٹ لکھ رہا ہے ۔۔یہ چھوٹا لکھاری اس زمین میں موجود انسانی سرگرمیوں کو چشم بینا سے دیکھتا ہے تو سب حقیقتیں لگتی ہیں اور ایک صرف ایک حقیقت نظر آتی ہے کہ ہم سب نہ اپنے آپ سے مخلص ہیں نہ اس مٹی سے ۔۔چھوٹا لکھاری دیکھتا ہے کہ اس معاشرے میں جھوٹ ایک حقیقت ہے ۔۔بیٹا باپ سے جھوٹ بولتا ہے ماں بیٹی سے جھوٹ بولتی ہے ۔۔دوسٹ احباب اپس میں جھوٹ بولتے ہیں ۔۔ماتحت آفیسر سے اور آفیسر ماتحت سے جھوٹ بولتا ہے ۔۔لیڈر عوام سے اور عوام لیڈر سے جھوٹ بولتے ہیں ۔۔استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد سے جھوٹ بولتا ہے ۔۔بچے اپس میں بوڑھے آپس میں جھوٹ بولتے ہیں ۔۔مہمان میزبان سے اور میز بان مہمان سے جھوٹ بولتا ہے ۔۔مسافر مقیم سے اور مقیم مسافر سے جھوٹ بولتا ہے ۔۔جھوٹ حقیقت ہے ۔۔جھوٹ کی بدبو سے ارض پاک کی مٹی متغفن ہو جاتی ہے ۔۔کرپشن حقیقت ہے کوئی ایک فرد بھی اس سے پاک نہیں ۔۔۔دھوکا فریب حسد کینہ حقیقتیں ہیں ۔۔انفرادیت حقیقٹ ہے بس تیرا کام ہو جائے باقی ساری دنیا باڑ میں جائے ۔۔دولت حقیقت ہے کسی بھی طریقے سے اس کو حاصل کرنا ہے ۔۔اقتدار کی من مانیاں حقیقت ہیں ۔۔الفاظ کے گورکھ دھندے اور خوشہ چینیاں حقیقتیں ہیں ۔۔سفارش اور اقربا پروری حقیقت ہے ۔۔بے وفائی حقیقت ہے ۔۔مصنوعیت حقیقت ہے۔۔کاروبار میں دھوکا حقیقت ہے ۔دو نمبر کی چیزیں حقیقت ہیں ۔۔یہ حقیقت ہے کہ ہر کہیں دھوکا ہے ۔۔چہرے میں جو حسن ہے نظروں کا دھوکا ہے ۔۔یہ حسن قدرت کا نہیں کریم کا کمال ہے ۔۔ذلفوں کی سیاہی دھوکا ہے ۔۔ڈھلتی جوانی دھوکا ہے ۔۔کٹتی عمر دھوکا ہے ۔۔آوا زکا جادو دھوکا ہے ۔۔نظروں کی دور بینی دھوکا ہے ۔۔محبوب کا مسیج دھوکا ہے ۔۔اگر وہ تجھے مسیج کرے کہ ’’تو میرے لئے کھلی کائنات ہے ‘‘ ۔۔ سمجھ لوجھوٹ بول رہا ہے مت مانو وہ تجھے خس وخاشاک کہہ رہا ہے ۔۔اگر وہ تمہیں چاند کہہ رہا ہے تو تمہیں گا لی دے رہا ہے کیونکہ چاند کی حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ اس میں داغ ہیں ۔۔اگر تجھے پھول کہہ رہا ہے تو آج کل کاغذ کے پھول اور حقیقی پھولوں میں فرق کرنا مشکل ہے ۔۔رشتے ناطے جھوٹ کے پلندے ہیں ۔۔اعتماد کا وجود ختم ہو چکا ہے ۔۔ یہ سب حقیقتیں ہیں ۔۔آج معصوم بچے کے رونے پر کوئی اعتماد نہیں کرتا ۔۔ماں کی دعا اور باپ کی نصیحت پہ کوئی اعتبار نہیں کرتا ۔۔ بہین کی محبت اور بھائی کے خلوص پہ کوئی اعتماد نہیں کرتا ۔۔آفیسر کے حکم اور ماتحت کے بجا اوری پہ کو ئی اعتبار نہیں ۔۔حکمران کے حکم اور لیڈر کی صلاحیت پہ کوئی اعتبار نہیں ۔۔پیشہ ور کے پیشے سے اعتبار اٹھ گیا ہے ۔۔کوئی اعتماد سئے نہیں کہتا ہے کہ ڈاکٹر درست علاج کرے گا ۔۔انجینیئر ٹھیک طور پر پل بنائے گا ۔۔ڈرائیور گاڑ ی کا اکسیڈنٹ نہیں کرے گا ۔۔استاد درست طور پہ پڑھائے گا ۔۔پولیس جان و مال کی حفاظ ت کرے گی ۔۔واعظ مسائل ٹھیک طور پہ مسائل بیان کرے گا ۔۔یہ سب حقیقت ہیں ۔۔یہ سو نہیں ہزاروں میں ہیں ۔۔افسانہ کیا ہے کہ’’ حقیقت ‘‘ افسانہ ہے ۔۔یہ ایک ہے صرف ایک ۔۔یہ سچائی حقیقت ہے اس میں کوئی ملاوٹ کی گنجائش نہیں ؂؂۔۔لیکن افسانہ بن گئی ہے ۔۔حلال کمائی حقیقت ہے لیکن افسانہ بن گئی ہے ۔۔قانون کا احترام حقیقت ہے لیکن افسانہ بن گیا ہے ۔۔بزرگوں کی توقیر حقیقت ہے لیکن افسانہ بن گیا ہے ۔۔سادگی حقیقت ہے لیکن افسانہ بن گئی ہے ۔۔رشتے ناطے حقیقت ہیں لیکن افسانے بن گئے ہیں ۔۔ایسا کیوں ہوتا ہے ہونا نہیں چاہیئے ۔۔ہم نے عارضی دنیا اور دو دن کی زندگی کو مقصد بنا لیاتو حقیقتیں چھپ گئیں افسانے حقیقت بننے لگے ۔۔ہم انسانی اقدار ۔۔خد مت خلق ۔۔معاشرتی فرائض ۔۔نیک نیتی ۔۔اور سچائی سے خالی ہوتے رہے ۔۔۔خود عرضی نے دل و دماغ میں جگہ بنا لیا ۔۔ہم صرف اپنا سوچنے لگے ۔۔حلال حرام میں تمیز مٹ گئی ۔۔اسلام نے دوسروں کے لئے جینا سکھایا ۔۔ شاعر نے دھائی دی ۔۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیان
شاعر نے کہا
درمان ز درد ساز اگر خستہ تن شوی
خوگر بہ خار شو کہ سراپا چمن شوی
بابا سیار نے کہا
حاجتے از ترش رو ہر گز نمی آید بدست
دل کشائی ہر کجا از چہرہ از چہرہ خاندان طلب
یہ وہ عظیم درس ہے جو فخر انسانیتﷺ رحمت االعالمینﷺنے انسانیت کو پڑھائے۔۔اگر ہم پھر سے یہ سبق پڑھیں تو سب فسانے حقیقتوں میں بدل جائیں گے۔۔۔اور حقیقت اپنی اصلی روپ میں آجائے گی ۔۔۔ایک بن جائے گی۔۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔