سرکاری ملازمین کی کمپنیاں

مثل مشہور ہے  “اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی”  یہ ضرب المثل اس وقت بولی جاتی ہے جب کسی میں بہت ساری خامیاں ہوں اوروہ  اپنی کسی معمولی سی غلطی پر صفائیاں دینا شروع کرے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان پر بھی یہ ضرب المثل صادق آتا  ہے۔  چونکہ معاشرے کو وجود بخشنے والا حضرت انسان ہی ہوتا ہے اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ اس معاشرے میں جتنا بگاڑ آیا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم اس کے بگاڑ میں یا تو اپنا حصہ ڈال چکے ہیں یا ڈال رہے ہیں یا آنے والے دلوں میں ڈالنے والے ہیں۔ یہ معاشرہ بھی کیا بلا ہے کہ ہم اس کے ساتھ اتنی تجربات کررہے ہوتے ہیں اور یہ انہیں اپنے اندر جذب کرتا آرہاہے۔

اسی معاشرے میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کاکام معاشرے کا اصلاح، تعمیر و ترقی اور تنظیم نو ہے۔ ان افراد کے ہاتھوں بقول حضرت اقبال ؒ اقوام کی تقدیر ہے۔ اور انہی افراد کے لیے احادیث میں پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان افراد کے محنت کے طفیل ہی آج ہم اس پوزیشن پر ہیں  اور ہمارے قلمی کو روانی حاصل ہوئی ہے۔ جی ہاں! ان عظیم ہستیوں کے بارے میں جن کو معاشرے میں  “استاد”  کا نام دیا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک استاد کے پیشے کو ہی دنیا میں وہ پیشہ سمجھا جاتا تھا کہ اس میں عزت خود آپ کے قدموں میں ہوتی تھی ۔ ہر کوئی آپ سے خندہ پیشانی سے ملتا تھا ۔ ہر اہم کام میں آپ کو سربراہ اور راہنما سمجھا جاتا تھا۔ ہر رائے طلب امور میں آپ کی رائے کو حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ ہر ہر موقع میں آپ کی شرکت باعث فخر اور اطمینان کی علامت ہوا کرتی تھی۔ لیکن!

کچھ عرصے سے اس مغزز پیشے سے منسلک کچھ افراد نے اس مقدس پیشے کو دنیا کی نظروں سے گرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جن افراد کو کل تلک قوم کے معماروں میں شمار کیا جاتا تھا آج وہ قوم کو زوال کی جانب لے جارہےہیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم پہلے ہی سے زبوں حالی کا شکار ہے ایسے میں کچھ اساتذہ اپنے ذاتی تسکین اور خواہشات کی تکمیل کے لیے کئی ایسے کاموں میں ملوث ہیں جس سے معاشرے میں اُن کے تقدس کے ساتھ ساتھ اس مقدس پیشے پر داغ نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں جتنا ان اساتذہ کا ہاتھ ہے اتنا ہی معاشرے اور ان سے منسلک اداروں کا بھی ہاتھ ہے۔ ذیل میں کچھ ایسے کاموں کو قارئین اور ارباب اختیار و اقتدار کےنظر کرنا چاہ رہا ہوں ۔ اگر ہوسکے تو اس مقدس پیشے کے رہی سہی ساکھ کوبچانے اور پھر اوج کمال تک پہنچانے میں اپنی سعی کوشش کریں۔

مملکت خداداد پاکستان کے قوانین کے مطابق کوئی بھی سرکاری ملازم کسی دوسرے غیر سرکاری ادارے میں تنخواہ کے عوض یا مالی فائدے کے لیے خدمات سرانجام نہیں دے سکتا ، لیکن یہاں پر گنگا الٹی بہتی ہے دوسرے اداروں میں خدمات سرانجام دینا ایک طرف یہاں پر تو کچھ اساتذہ نے تو اپنے ہی ادارے قائم کرچکے ہیں اور بیسیوں ہزاروں میں پگار لے رہے ہیں یا شراکت دار ہیں لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں۔ محکمہ تعلیم کے پاس تمام تر تفصیلات ہونے کے باوجود ایسے لوگوں کے خلاف قدم نہ لینا ایک خاموش معنی ضرور رکھتا ہے۔

اسی مقدس پیشے سے منسلک اساتذہ کا اصل کام طلبہ کی پڑھائی اور تربیت کاری ہوتا ہے اور اس کے لیے انہیں ایک ایسا ماحول درکار ہوتا ہے جہاں وہ اپنے صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرسکے۔ یہ ماحول انہیں ذاتی رنجشوں سے دور جبکہ تعلیم دوست سوچ کے قریب تر لا سکتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں زیادہ تر اساتذہ خود کو اس مقدس پیشے سے زیادہ دوسرے کاموں کے لیے موزوں سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ڈرائیور کی بے ایمانی کا سب رونا روتے ہیں اور اس مقدس پیشے سے منسلک اساتذہ خود کو ڈرائیور کے طور پر منوانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جب صبح ہی صبح مسافروں سے لڑ لڑ کر ایک بندہ سکول پہنچے گا تو وہ طلبہ کو کیا پڑھا سکے گا۔ وہ بات بات پر طلبہ سے الجھے گا اور یوں سکول کا سارا تعلیمی نظام متاثر ہوگا۔

ہمارے معیار کے اس کم ترین پیمانے میں یہ امر بھی ہمیں قابل غور لگ رہا ہے کہ معاشرے کے اس مقدس پیشہ ور کو تو سب کے لیے قابل تقلید اور مثالی ہونا چاہیئے۔ انہیں موجودہ دور میں گنگناتے ہوئے، موبائل استعمال کرتے ہوئے، اُٹھتے بیٹھتے، بات کرتے ہوئے اور کسی بات پر رائے قائم کرتے ہوئے  یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ کہیں طلبہ پر اس کابُرا اثر نہ پڑے ۔

آخر میں اساتذہ سے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے اسلاف کے کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  آپ بھی قوم وملت کے لیے قابل تقلید بن جائیں۔ آپ نہ سکول چلائیں اور نہ ہی کسی ادارے کے بورڈ کا حصہ بنیں ، نہ ہی ڈرائیونگ سیٹ کو استاد کی سیٹ (کرسی) پر فوقیت دیں۔

نوٹ: یہ کالم سب پہلے زیل نیوز میں شائع ہوئی تھی۔ دوبارہ اشاعت کے حقوق صرف چترال ایکسپریس کو دئیے گئے ہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔