خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں

پاکستان کو صحت کے حوالے سے گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے ہی کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن کی بنیادی وجوہات، سرکاری سطح پر بجٹ کم ہونے کے باعث سہولیات کا فقدان اورسرکاری و نجی ڈاکٹروں کا فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ غیر اخلاقی گٹھ جوڑ ہیں۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈاکٹر اپنے مریضوں کی صحت سے زیادہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں سے ڈیل کر کے اپنے سرمائے کو طول دینے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ صوبائی حکومت خیبر پختونخوا جو ہسپتالوں میں اصلاحات کی دعویدار ہیں اور کئی ایک اصلاحات ہوئی بھی ہے ۔ ہسپتالیں اور ڈاکٹر حضرات کچھ دنوں کیلئے گرما گرمی دکھاتی ہیں لیکن وہ بوجوہ وہ نافذ العمل نہیں ہے اوراسطرح پھر کچھ دنوں بعد سربہ مہر ہوجاتی ہیںواقعہ یہ ہے کہ  پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کا صوبہ خیبر پختونخواہ (جو چار دھائیوں پر محیط دہشت گردی کی وجہ سے معاشی زبوں حالی کا شکار ہے) میں واقع ترقی کی راہ تکتا ضلع چترال جہاں اب تک زندگی کی بنیادی سہولیات ناپید ہیں اور جہاں اسودہ زندگی گزانا ایک خواب سے کم نہیں۔ ان دشوار حالات میں بھی اس مٹی نے مختلف شعبوں میں ایسے سپوت پیدا کیے ہیں جنہوں نے  نہ صرف ملک بلکہ دنیا میں اس علاقے کا نام رشن کیا ہے۔ ان تمام شعبوں میں جو سب سے قابل احترام اور قابل تکریم شعبہ میڈیسن کا سمجھا جاتا ہے۔ خاص کر چترال کے سادہ عوام ڈاکٹروں کی اعتقاد کی حد سے مانتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بچھلے ادوار کے ہمارے مقامی ڈاکٹر صاحبان نے عوام کی بےلوث خدمت کی ہے اور اپنے پیچھے مریض اور مسیحا کے درمیان تقدس اور احترام پر مبنی “لیگیسی” چھوڑکر چلے گئے ہیں۔بدقسمتی سے جب سے فارماسوٹیکل کمپنیز کے درمیان “مقابلے” کی جنگ چل پڑی ہے تب سے یہ کمپنیاں اپنی “پروڈکٹ” کی “مارکیٹنگ” اور “سیل” کو یقینی بنانے کے لئے کسی بھی اخلاقی اور قانونی معیار کی پابندی کو بالائے طاق رکھ کر “پرافٹ” کمانے میں مگن ہیں۔ اور ٹارگٹ “اچیو” کرنے کے لئے یہ ڈاکٹر صاحبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اور یوں میڈیکل ریپ اور ڈاکٹر کی گٹھ جوڑ سے ایک ایسے گندے دھندے نے جنم لی ہے جو اس مقدس پیشے کی ساکھ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔     اصل میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ مختلف فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے نمائندے جنہیں عُرف عام میں میڈیکل ریپ بھی کہا جاتا ہے، اپنی کمپنی کی ادویات لکھوانے کے لیے ڈاکٹروں کو کمیشن، قیمتی تحائف، بیرونِ ُملک دورے اور بعض اوقات تو گھر کے یوٹیلٹی بلز اور کچن تک کا خرچہ اُٹھانے کی آفر کرتے ہیں جسے قبول کرتے ہوئے ڈاکٹر  معیار کو پسِ پشت ڈال کر مریضوں کو مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹروں کا ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ یعنی جن لیبارٹریوں کے ساتھ ان کا کمیشن فکس ہوتا ہے، اُن کے ٹیسٹ ہی ان کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔پچھلے دنوں فارماسوٹیکس سے منسلک ایک صاحب سے اس “کاروبار” سے متلق تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ اکثر ڈاکٹروں کو اصل میں دوائی کی افادیت سے یا اس کے اوپر کی گئی تحقیق سے کوئی سروکار نہیں ہوتا،  ان کو صرف اپنے کمیشن سے غرض ہوتی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیز کو اس طرح کے ہھتکنڈوں کی شاید ضرورت نہیں لیکن وہ اپنی سیل بڑھانے کے لیے ڈاکٹروں کو فائیو سٹار ہوٹلوں میں ڈنر، کروانے کے ساتھ ساتھ تحقیق، سییمنارز اور کانفرنسز کے بہانے اندرون اور بیرون ملک دوروں کے اخراجات اور مہنگے تحفے تحائف دیتی ہیں۔لوکل کمپنیز ڈاکٹروں کو سیل پر کمیشن دینے کے ساتھ ساتھ ان کے کلینکز پر موجود ٹیکنیکل سٹاف کو بھی تحائف اور ادویات کے سیمپلز وغیرہ دے کر خوش کرتی ہیں۔ اس کے لیے علاوہ میڈیکل اسٹور والوں کو بھی خصوصی مارجن دینا پڑتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں کاروبار کے لیے ہر فرد بھتہ مانگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب غیر اخلاقی ہے مگر کیا کریں؟انہی صاحب نے ایک اور پتے کی بات کہ دی۔ انکا کہنا تھا کہ پرانے وقتوں کے ڈاکٹروں کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ تھا کہ اللہ نے فلاں ڈاکٹر کے ہاتھ میں بڑی شفا دی تھی اورانکا علاج بہت عمدہ اور پائدار ہوتا تھا” بقول ان صاحب کے اس شفایابی میں راز یہ تھا کہ وہ ڈاکٹرادویات کے معاملے میں کسی قسم کی “ڈیل” یا “کومپرومائز” نہیں کرتے اور جب تک کسی دوائی کے بارے میں مکمل طور پر تشقی نہیں ہوتی اسکو کبھی بھی “پرسکرایب” نہیں کرتے تھے۔  اس دھندےکی وجہ سے  کوئی سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے تووہ ہیں غریب عوام۔ وہ غریب جو جو اپنا پیٹ کاٹ کے دور دراز علاقے سے سفر کرکے شہر صرف اس مسیحا سے مسیحائی کی امید لے کر آتا ہے اور تبادلے میں ڈاکٹر اسے ادویات کی ایک لمبی فہرست تھما کے سچی جھوٹی تسلیاں دے کے فارغ ہو جا تا ہے۔ بعض رحم دل ڈاکٹر مریض سے اسکی استطاعت کا پوچھ کریا حلیے سے اندازہ لگا کر ادویات کی فہرست ترتیب دیتے ہیں ۔۔۔یہ سوچے بغیر کہ وہ ایک غریب مریض کے لئے امید کی کرن نہیں بلکہ آلام و مصایب میں  اضافہ کا موجب بنا ہے ۔یہ بات نہیں کہ اس شعبے سے وابستہ تمام ڈاکٹر دولت کے حصول میں اندھے ہو گئے ہیں۔ اب بھی بہت سے ایسے ڈاکٹران ہیں جو ایمانداری اور فرض شناسی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہاں تک سنا گیا ہے کہ بہت سے ڈاکٹر جو دوائی کے چناو کے سلسلے میں بہت اصول پسند ہیں اور بلا تحقیق ہر دوائی ساز کمپنی کے نمائندے کو اپنے دفتر کے قریب بٹکنے بھی نہیں دیتے ہیں اور اپنے کلینک کے اوقات میں بھی اکثر غریب مریضوں کا مفت معائنہ اور دوایئاں تک دینے میں مدد کرتے ہیں۔ بہت سادہ زندگی جیتے ہیں اور خوش و خرم رہتے ہیں۔ ان پرجتنا فخر کیا جائے کم ہے۔شاید چترال بھی اس “کیپیٹیلسٹ”معاشرے کا حصہ بن گیا ہے جہاں مادہ پرستی عروج پر ہے دولت کا حصول ہی سب کچھ ہے اور جہاں سماجی اور اخلاقی اقدار گراوٹ کا شکار ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ چوکیدار سے لیکر بیوروکریٹ تک اور ہوٹل یا ورکشاپ میں کام کرنے والے “چھوٹے” سے لیکر بڑے کاریگر یا کاروباری تک ہر کوئی اپنے حصے کی کمیشن لینے میں مصروف ہیں اور اپنے حصے زمہ داری کو دوسرے کے سر پر تھوپ کر اور خود کو ہر معاملے میں بری الزمہ سمجھتا ہے اور آخر میں آکر کہتا ہے ۔۔۔اس ملک کا آوے کا آوہ بگڑ گیا ہے۔اب ایسے معاشرے میں کسی ایک شعبہ سے منسلک افراد کو ٹارگٹ کرکے لعن طعن کرنا کچھ معیوب سا لگ رہا ہے۔۔ جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔۔۔ اور ۔۔۔۔مٹی پاو۔۔۔ آئی ایم سوری ڈاکٹر صاحب۔” خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں         زخم پیدا کریں یا زخم دل اچھا کریں”
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔