عدم  برداشت  ۔ایک معاشرتی بیماری

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی انا اور ضد کی بنا پرکسی دوسرے کو بلکل برداشت کرنے کے لئے تیار ہی نہیں،جدید ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں انسان ہر قسم کی جدید سے جدید تر سہولیات  اسائشات سے بہرہ ور ہے، وہیں یہ آسائشات و سہولیات وبال جال بھی بنتے جارہے ہیں ،اور خواہ مخواہ کا ٹینشن بھی،     اور یہی وجہ ہے کہ صبرو برداشت کا مادہ روز بروز کم جبکہ اس کی جگہ شدید زہنی ہیجان و ڈپرشن کی بیماری پھیل رہا ہے، قوت برداشت کی کمی سے آئے دن معمولی باتوں پر’’ تو تو میں میں‘‘ اور پھر معاملہ ہاتھا پائی اور جھگڑون کی نوبت آ پہنچتی ہے۔ معمولی سے معمولی بات پر نہ جانے کیوں چہرے سیخ پا ہوجاتے ہیں ،آج کل کےمعاشرے کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے جو کہ معاشرے میں بڑی تیزی سے سرائیت کررہی ہے اور اس کا علاج تقریباً نہ ہونے کے برابر۔   ہماری عدم برداشت کی سب سے بڑی مثال   سماجی ویب سائٹس  جس میں فیس بک سرفہرست ہے  میں ایک معمولی پوسٹ پر ایک دوسرے کے حریف گروپس کے  درمیان کئی دنوں تک جاری رہنے والی اِن  کمنٹس  کی ہے جن میں  سےاکثر اتنے برُے اور غلیظ ہوتے ہیں کہ شرم سے سر جھک جاتا ہے، گویا  سماجی رابطے کی اس سب سے بڑی پیلٹ فارم پر مذہبی،نسلی،سیاسی و سماجی تفرقات کی ایک جنگ عظیم جاری ہے اور حریف گروپس صبرو برداشت و عزت و احترام سے مکمل عاری ہوکر ایک دوسرے پر گولہ باری میں مصروف ہیں معاملہ گالی گلوچ اور دست و گریبان ہونے کی حد تک آجاتی ہے اور یہ سلسلہ زور و شور سے جاری ہے ۔ گویا ہر کوئی اپنی اپنی انا اور ضد میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں، اپنے آپ کومنوانے اور دوسروں کو نیچے گرانے کی جلدی میں ہیں ۔سوشل میڈیا میں چونکہ لا تعداد  ملک دشمن عناصر بھی ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت         کسی بھی سیاسی یا مذہبی نام کو استعمال کرکے   انتہائی چالاکی کے ساتھ کارفرما ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح لوگوں کو رنگ، نسل،مذہت، فرقے اور دوسرے انتہائی حساس معاملات پر ایک دوسرے سے لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کئے جائیں اور پوری قوم کو منتشر کرکے ان کے درمیان ایک ایسی وسیع لائن کھنچی جائے کہ یہ دوبارہ کبھی متحد نہ ہوسکیں ،یہ فرقہ ورانہ بنیاد پر بھی ایک دوسرے سے لڑیں ، نسلی و قومیت کی بنیاد پر بھی ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوں اور ان کے اتحاد و اتفاق کو  اس طرح پارہ پارہ کیا جائے کہ یہ دوبارہ کبھی بھی ایک نہ ہوسکیں۔مگر ہم ان تمام محرکات کو پست پشت ڈال کر ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری میں مصروف ہیں،ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کسی کا مخصوص ایجنڈا ہو،ہوسکتا ہے کہ یہ لڑانےکا ایک پلان ہو ، ہوسکتا ہے کہ یہ بٹوارہ کرنے کا منظم منصوبہ ہو، مگر ہم انکھیں بند کرکے ایک دوسرے سے دست بہ گریبان ہیں اور نتیجہ ایک دوسرے سے دشمنی ، ایک دوسرے سے دوری اور سب سے بڑھ کر یہ کہ باہمی اتحاد و اتقاق کا پارہ پارہ ہو جانا ۔ یاد رہے صبر و برداشت کا مادہ جس معاشرے سے اُٹھ جائے وہیں بات باتوں میں جھگڑے اور معمولی تکرار پر خون خرابہ ہونا کوئی عجب نہیں ۔ معاشرے کی اکثریب قوت و برداشت سے عاری ہوتا جارہا ہے  اور یہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے ۔ یہ لمہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے ، آج کل عام مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی کسی کو سننے کو ہی تیار نہیں ، ہر کوئی اپنی ضد پر قائم اور ہر کوئی اپنی انا کے ہاتھوں بے بس ،مگر ہم سب یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ چونکہ ایک ہی مسئلےپر کسی ایک    شخص  کا نقطہ نظر دوسرے سے مختلف ہونا ایک فطری عمل ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر اپنے فلسفے ، اپنے نقظہ نظر اور اپنے  رائے کو دوسرے پر مسلط کرنا   اور اس پر اڑے رہنا کسی طور درست نہیں بلکہ یہ انتہا پسندی  کہلاتی ہے  ۔ ہم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کے رائے کاحترام کرنےاور کھلے دل سے تسلیم کرنے کی بجائے اپنے آ پ کو سچ جبکہ باقی سب کو بلکل غلط ٹھہرانے کی بیماری میں مبتلا ہے ،اب ہمیں کون سمجھائے کہ  بہترین معاشرے انا ،ضد ، عدم برداشت ،گالی گلوچ اور جنگ و جدل پر تشکیل نہیں پاتے بلکہ یہ ایک دوسرے کے رائے کے احترام ، صبرو برداشت ،  روا  داری ،اتحاد و اتفاق ،عزت و تکریم دینے اور  ایک دوسرے کو  تحمل و برداشت سے سننے سے تشکیل پاتے ہیں ۔ باہمی نفاق   ،   ضد   ،  اور  اور   اتفاق و اتحاد کی کمی سے معاشرے ٹوٹ  پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ معاشرے کے اکثریتی طبقے کو اس معاملے میں تعلیم  ، شعور و اگہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ جدید دور کے جدید مسائل کو منظم انداز سے حل کئے جائیں اور معاشرے کو مذید ٹوٹ پوٹ سے بچایا جاسکے۔

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔