پبلک سروس کمیشن کےآگے…ہم واقعی میں لاوارث ہیں۔۔۔۔   

خلیفہ ثانی حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے  کہ اگرفرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا پیاسا مرگئے تو قیامت کے دن عمر سے پوچھا جائے گا۔ کہاں وہ اسلامی حکمران اور کہاں آج کا اسلامی جمہوریہ پاکستان!!! مملکت خداداد میں ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کا ہم کیا ذکر کریں، کس سے کریں؟ کیسے کریں؟ جس ملک کا حاکیم ہی فریبی ہو وہاں عام آدمی کا کیا بنے گا؟ مگر کچھ تو اُمید اس ہستی سے بھی بنتی ہے جو تبدیلی اور حقیقی حکمرانی کا نعرہ لیکر اس صوبے میں حکمرانی کا  تاج سر پہ سجا رکھا ہے۔ نوجوانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے  کی یقین دہانی کرکے ہمارے اُمیدوں کو اب تک زندہ رکھا ہے۔ قومی لیول کی ناانصافیوں کو دیکھ کر ہم اب یہ توقع کرتے ہیں کہ اگلی بار خان صاحب کو اقتدار ملے گی تو یہ ناانصافیاں، زیادتیاں ختم ہونگی، اور یہ وہ اُمید ہے جو پاکستان کے کروڑوں نوجوانوں کے لئے جینے کا سبب بنا ہوا ہے۔ مگر یہاں صورت حال مختلف دیکھائی دے رہاہے۔

اکثر سنتے رہتے ہیں کہ ہمارے فلم انڈسٹری کو انڈیا نے تباہ کیا تاکہ اپنے فلم انڈسٹری کو صیح معنوں میں کامیاب کرسکے، ہمارے پی آئی اے کو پرائیوٹ کمپنیوں نے تباہی کے دہانے پہنچا دئیے تاکہ وہ پاکستان میں نجی ائیر لائن چلاسکیں۔ ہمارے ریلوے کی تباہی میں جاپان ملوث ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں ریلوے کا نظام آباد ہوا تو جاپان گاڑیوں  کی ایک بہت بڑی مارکیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ ہمیں اپنے ہر تباہ حل ادارے کے پیچے بیرونی ہاتھ ملوث نظر آتا ہے۔ ہو سکتاہے کہ یہ سب باتیں درست بھی ہو، مگر کیا ہمارے حکومت اتنی غیر ذمہ دار ہے یا ہمارے اداروں میں اتنے غیر ذمہ دار اور مفاد پرست لوگ بیٹھے ہیں کہ وہ قومی اداروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سوال ہیں جن کو     کوئی بھی پاکستانی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔

ہم تبدیلی والےصوبہ کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے دیگر صوبوں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، قومی یا وفاقی اداروں سے ہمارا کیا واسطہ۔ ہم اپنے تبدیلی والے صوبے میں کتنا خوش ہیں یہ دیکھنا ہے ۔ ہماری صوبائی حکومت نوجوان کو میرٹ کی بحا لی کے نا م پر این۔ٹی۔ایس کے ذرئعے تمام ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا۔اسے تبدیلی اور میرٹ میں کتنا فرق پڑا وہ اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ جن نوکریوں کے لئےبے روزگار  نوجوان مفت درخواست جمع کرتے تھے وہاں اب سات  سو روپے جمع کرنا ہوتا ہے، ایک اور بات کہ این۔ٹی۔ایس کے بجائے صوبائی اداروں کو بھی مضوط کیا جا سکتا تھا مگر کرے گا کوں؟  ۔۔۔۔  ٹھیک ہے میرٹ کی خاطر یہ بھی ہم کر جاتے ہیں ۔ مگر خان صاحب یہاں بھی بیرونی کمپنیوں نے ہمارے اداروں کی تباہی اور اداروں  میں بیٹھے مگرمچھوں کے ساتھ ملکر نوجوانون کو  لوُٹنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ وہ یوں کہ خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن     کی طرف سے عام بھرتی کے لئے 285 روپے نیشنل بنک میں جمع کرنا ہوتا تھا جو شروع سے لیکر اب تک یعنی 2018ء تک  ہر اُمیدوار بے غیر کسی اعتراض کے جمع کرکے آرہے تھے مگر اب کمیشن والوں نے نجی موبائل کمپنیوں کے اکاونٹ میں جمع کرونے کا فیصلہ کرچکے ہین اور اب ہر اُمیدوار کو 285 کے بجائے 314 روپے جمع کرنا ہوتا ہے اور وہ(موبائل کمپنی والے ) یہ رقم نیشنل بینک میں کمیشن کے اکاونٹ میں جمع کریں گے اور اس کے لئے وہ ہر اُمیدوار سے  29 روپے سروس کی مد میں بٹور لین گے۔ جو کہ کھلم کھلا زیاداتی اور بے روزگار نوجوانون بلکہ ہر نوجوان کے ساتھ ظلم ہے۔ اور ہمارے ذرائع سے بات بھی کنفرم ہوئی ہے کہ  اس سروس کو موبائل کمپنیوں کو دینے میں کمیشن کے عملے نے بھاری رشوت وصول کر لئے ہیں۔ اور اس مد میں  موبائل کمپنیوں کو کھلم کھلا  لوُٹنے کی اجازت دے چکے ہیں ۔ اب یہ بات کنفرم ہوگئی ہے کہ جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ملکر ہمارے بیورکریٹس بھی ہمیں لوُٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔وہ (بیورکریٹس) نہ صرف لوُٹ رہے ہیں بلکہ اداروں کی بربادی کے بھی وہ خود ہی ذمہ دار ہیں۔ مگرخان صاحب سے گلہ اور یہ درخواست ہے کہ خدارا نوجوانوں کے استحصال کو روکنے میں کردار ادا کریں ورنہ یہ تبدیلی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔