بجلی کے مزید 10منصوبے

……….محمد شریف شکیب…..
خیبر پختونخوا حکومت نے نجی شعبے کے مالی تعاون سے 388میگاواٹ کی پیداواری گنجائش کے حامل بجلی پیدا کرنے کے 10منصوبوں کی منظوری دی ہے۔صوبائی حکومت کو توقع ہے کہ ان منصوبوں کے لئے 240ارب روپے کی سرمایہ کاری آئے گی۔جس سے گھریلو اور کمرشل صارفین کوسستی بجلی کی فراہمی کے ساتھ ہزاروں افراد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ پانی، شمسی توانائی اور ہواسے بجلی پیدا کرنے کے ان منصوبوں پرفوری طور پر شروع کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ صوبے کے پاس 74میگاواٹ کی سرپلس بجلی پہلے سے موجود ہے لیکن اسے نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کے لئے اب تک کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ صوبائی حکومت الزام لگاتی ہے کہ واپڈا ان سے سستی اضافی بجلی خریدنے کو تیار نہیں۔ صوبے میں پانی کے وافر ذخائرسے سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے 1993میں سرحد ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے نام سے خود مختار ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ 1913میں اس کا نام بدل کر پختونخوا ہائیڈل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن تجویز کیاگیا۔ 2014میں اس کا نام پھر تبدیل کرکے خیبر پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن رکھ دیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل اور اے این پی ، پی پی پی حکومت کے ادوار میں ادارے نے 107میگاواٹ بجلی پیدا کرکے نیشنل گرڈ میں شامل کیا تھا۔ صوبے میں جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو عمران خان نے پیڈو کے ذریعے صوبہ بھر میں 350چھوٹے ڈیم بنانے، غیر آباد اور بنجر اراضی کو سیراب کرنے کے ساتھ ایک ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے والے ہیں۔ مگر یہ چھوٹے ڈیم بنے ہیں نہ ہی بجلی پیدا کی جاسکی۔ جس پر نہ صرف تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین نکتہ چینی کررہے ہیں۔ بلکہ عوامی سطح پر بھی ساڑھے تین سو ڈیموں والی بات مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ گذشتہ گرمیوں میں مون سون کی بارشوں سے پشاور شہر کے مختلف مقامات پر بارش اور سیوریج کا پانی جب نشیبی علاقوں میں جمع ہو گیا تو لوگ ان تالابوں کو عمران خان کے ڈیموں سے تعبیر کرکے دل پشوری کرنے لگے۔ اس دوران عمران خان نے سوات اور چترال میں بجلی گھر بنانے کے منصوبوں کا افتتاح کیا۔ تو اے این پی نے آسمان سر پر اٹھالیا کہ ان منصوبوں کاافتتاح وہ اپنے دور حکومت میں کر چکے ہیں تحریک انصاف ان کے منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں لگاکر لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ سوات، دیر، چترال، گلیات، کاغان اور ناران کے علاوہ کوہستان، بٹگرام اور شانگلہ میں پانی سے ہزاروں میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ درجنوں مقامات کی نشاندہی بھی ہوچکی ہیں اور ان پر کاغذی کام بھی مکمل ہوچکا ہے۔ مگر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے قائم خود مختار ادارے کی کارکردگی بھی زیادہ قابل ستائش نہیں رہی۔ 2015کے ہولناک سیلاب سے چار میگاواٹ پیداواری گنجائش کا حامل ریشن پاور سٹیشن تباہ ہوا تھا۔جس سے پورا ضلع اڑھائی سال تک تاریکی میں ڈوبا رہا۔ مگر بجلی گھر کی بحالی کے لئے پیڈو نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اگر اسے عوام کی فکر نہیں تو کم از کم ملبے میں دھنسی بجلی گھر کی مشینری کو نکالنے کی کوشش ہی کی جاتی۔ کروڑوں اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا یہ بجلی گھر اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس دوران سولر پینل اور جنریٹر لگانے پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ یہی رقم اگر تباہ شدہ بجلی گھر کی بحالی پر خرچ کی جاتی۔ تو ایک سال کے اندر ریشن بجلی گھر سے
دوبارہ پیداوار شروع ہوسکتی تھی۔بعض دوستوں کی رائے ہے کہ پیڈو میں بجلی پیدا کرنے کے شعبے میں ماہر افراد ہونے چاہئیں۔کیونکہ یہ ایک خالص ٹیکنیکل ادارہ ہے لیکن حکومت نے وہاں سیاسی بنیادوں پر نان ٹیکنیکل افراد کی تعیناتی کی ہے جس کی وجہ سے ادارے کی کارکردگی ابتر ہوتی جارہی ہے۔ اگر388میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے مجوزہ دس منصوبے بھی مناسب ہوم ورک کئے بغیر مذکورہ ادارے کے حوالے کئے گئے تو ان کا انجام بھی تین سو پچاس ڈیموں سے مختلف ہونے کا کوئی امکان نہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت 28مئی کو ختم ہورہی ہے۔ کیا دو مہینوں کے اندر ان میگاپراجیکٹس پر کام شروع ہوسکے گا؟؟
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔