پی ٹی آئی، عوام اور قدرت

کچھ باتیں آپس میں گڈ مڈ ہوگئی ہیں۔ پہلی بات پی ٹی آئی اب سیاسی طور پر بالغ ہوگئی ہے۔ بالغ سے مراد آپ جو بھی لیں ہم پاکستان میں رہتے ہوئے سیاسی بلوغت اس سطح کو کہتے ہیں جہاں ایک سیاسی بندہ یا سیاسی پارٹی صحیح یا غلط جوڑ توڑ کا ماہر ہوجائے، پارٹی منشور کو طاق نسیاں پر رکھ کر اقتدار تک رسائی کے لئے ہر وہ کام جائز سمجھے۔ جس سے عوامی مفادات کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔ جبکہ سیاسی بلوغت اس وقت عروج کو پہنچتی ہے جب آپ خود ہی اپنی سیاسی منشور اورسیاسی پارٹی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے در پے ہوجائیں۔ وہ جون ایلیا کی اپنی محبوب سے گزارش کہ ’’تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے‘‘ والی سچویشن پیدا ہوجائے۔ سینیٹ الیکشن کے بعدعام آدمی کے پاس پی ٹی آئی کوباقی سیاسی پارٹیوں سے الگ سمجھنے کی کیا وجہ باقی رہتی ہے۔سینیٹ الیکشن کے دوراں پی ٹی آئی نے ایسا کیا نیا کارنامہ سرانجام دیا جس سے ہم یہ یقین کرلیں کہ پی ٹی آئی باقی جماعتوں سے اب بھی الگ ہے۔ البتہ زرداری کی شاگردی میں کم از کم ایک بات متوقع ہے کہ جس طرح پی پی پی زرداری کی سربراہی میں اپنا حشر کروا چکی ہے۔ پی ٹی آئی والے بھی اگلے ایک دو الیکشن کے بعد پارٹی کا نام کتابوں میں ڈھونڈیں گے۔پی ٹی آئی والے لاکھ صفائیاں پیش کریں کہ بظاہر ہمارا فیصلہ آپ کو غلط لگ رہا ہے مگر اندر سے کچھ اور نکلے گا۔ تو جناب! جس ملک میں دودھ کے ڈبوں سے یوریا برآمد ہورہاہو۔ گھی کے ڈبوں سے زندہ چوہے ۔ قصاب کی دکانوں سے گدھے کا گوشت اور ہسپتالوں سے جعلی ڈاکٹر برآمد ہورہے ہوں۔اس ملک میں زرداری کے ڈبے سے محمد علی جناح کیسے برآمد ہوسکتا ہے۔؟
دوسری بات! تمام سیاسی پارٹیاں بشمول پی ٹی آئی اکیسویں صدی کے پل پل کی خبر رکھنے والی عوام کو اب بھی کیوں گدھا سمجھنے پر بضد ہیں۔ ووٹ کا حق اگر عوام کے پاس اب بھی کسی نہ کسی صورت موجود ہے تو سوال کا حق بھی ان ہی کا بنتا ہے۔ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ اس جدید دور میں بھی دیسی منجن چل سکتا ہے۔ محترم آپ گزشتہ کل کہہ چکے ہیں کہ زرداری صاحب اس ملک کے سب سے کرپٹ ترین فرد ہیں۔ آج اسی زرداری کے لئے ووٹ مانگنے میرے دروازے پر آئیں گے۔ سوال تو پوچھا جائے گا۔ ’’گو نواز گو‘‘ آپ کے کسی البم کا گانا نہیں جو بچے بچے کی زبان پر اسی جوش و خروش سے اب بھی موجود ہے۔آپ نے کہا تھا نواز شریف نے ملک لوٹا ہے۔ اس لئے ان کو وزرات عظمی سے ہٹانے کے لئے میرا ساتھ دو اور ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگاؤ۔ نوجوانوں نے آپ کا قدم قدم پر ساتھ دیا۔ اور ساتھ دینے والے پی ٹی آئی کے نوجوانوں کاہی دباؤ تھا کہ اب نواز شریف گھر بیٹھ چکا ہے اور ہر ایک سے پوچھ رہا ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘۔ یہ فرد واحد کا کمال نہیں ہوا کرتا جناب۔ پھر بھی بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ 15 جنوری کو ہی آپ نے زرداری کے ساتھ اسٹیج پر کھڑے ہونے سے انکار کردیا تھا۔ 27جنوری کو آپ نے کراچی ائیر پورٹ پر کہا تھا کہ زرداری کے ساتھ 2018 کے الیکشن میں اتحاد کا کوئی چانس موجودنہیں کیونکہ وہ مصدقہ جرائم پیشہ شخص ہے۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ آٖپ ایوان بالا کے انتخابات کے لئے اتحاد کو کیا نام دیں گے۔ یا آپ کے پاس کوئی ایسا منجن بھی ہے جس سے آپ زرداری کو کم از کم لیاقت علی خان ثابت کرسکتے ہیں۔
تیسری بات ابھی باقی ہے۔ بطور مسلمان ہمیں اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ اللہ تعالی کی ذات بہرحال موجود ہے۔ ان کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ قدرت کی کوئی مجبوری نہیں ہوتی۔ وہ انسان کو اس سطح تک لے جاتا ہے جہاں عزت، پیسہ، پذیرائی سب کچھ میسر ہوتا ہے۔ اس پوزیشن کو برداشت کرنا تھوڑا نہیں بہت مشکل ہوتاہے ۔ یہاں سب سے تکلیف دہ اور زوال کا سبب بننے والی بات انسان کا ’’ میں‘‘ کا شکار ہونا ہے۔محسنوں اور برے وقت کے دوستوں کو بھول جانا’’میں‘‘ والی بیماری سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ ’’میں‘‘ جیسا واحد کے لئے استعمال ہونے والالفظ صرف ایک ذات کے لئے مختص ہے۔ برابری اور مقابلہ زرداری اور نواز شریف سے تو ہوسکتی ہے۔ جو ذات دنیا کی عالیشان اور محیرالعقول سلطنتوں کو صفحہ ہستی سے مٹاسکتا ہے اس کے سامنے ’’میں‘‘ کا گرداں کرنے والا ایک شخص کس حیثیت کا مالک ہوگا۔وہ ذات اگر ایک فرد کو بادشاہ بنا سکتا ہے تو بادشاہ بنائے جانے والے شخص کے رعایا کے بارے میں کئے گئے غلط فیصلوں اور ان کے سامنے بولے گئے بار بار کی جھوٹ کے بارے میں پوچھ گچھ کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے۔پھر بھی ہم آپ کی ہر بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کریں گے اگر آپ وہ مشین ہمیں دکھا دیں جس سے آپ اپنی پارٹی میں شامل ہونے والے افراد اور اتحادی سیاسی پارٹیوں کی گناہوں ، کرپشن اور ذہنوں کو ایسے دھوتے ہیں جس سے وہ راتوں رات فرشتے بن جاتے ہیں۔
ایک اور بات بھی شاید سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ عروج کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے جس جس کے کندھے سہارا دینے کے لئے کناروں پر موجود تھے وہ کندھے عروج کے اس تخت جس پر آپ متمکن ہوچکے ہیں میں آپ کے ساتھ موجود نہیں اور جو کندھے وہاں آپ کے ساتھ موجود ہیں وہ ہر تخت پر متمکن شخص کا صرف تخت کی حد تک ساتھ دیتے ہیں۔ جس دن تخت سے اترنا ہوگا اور اترنا ہوتا ہے ہر ایک کو۔ اس دن سیڑھیوں کے زنگ آلود گریل آپ کا سہارا برداشت نہیں کرپائیں گے۔ ملک کی تقدیر بدلنے کا خواب دیکھنے والے دیوانوں کے کندھوں کی پھر ضرورت پڑتی ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔