ثقافت کے زندہ امین

………….محمد شریف شکیب………
خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی رخصتی سے ایک ماہ قبل صوبہ بھر میں اقلیتی برادری کے مذہبی پیشواوں کو ماہانہ اعزازیہ دینے کا اعلان کیا ہے۔صوبہ بھر میں ہندو، سکھ، کالاش اور مسیحی برادری کے 293مذہبی رہنماوں کو وظائف دیئے جائیں گے جس کے لئے صوبائی کابینہ نے چودہ کروڑ روپے کے فنڈز کی منظوری بھی دی ہے۔اس سے قبل صوبہ بھر میں جامع مساجد کے پیش اماموں کو ماہانہ دس ہزار روپے کا وظیفہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے ’’ ثقافت کے زندہ امین‘‘ کے نام سے فن کاروں، ادیبوں اور شاعروں کو ماہانہ تیس ہزار روپے کا اعزازیہ دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ گذشتہ سال نومبر میں مقامی اخبارات میں فن کاروں ، شاعروں اور ادیبوں سے درخواستیں طلب کی گئیں۔صوبہ بھر سے ادب و ثقافت سے منسلک 22افراد پر مشتمل سکروٹنی کمیٹی بٹھائی گئی۔ صوبے کے پچیس اضلاع سے چھ ہزار سے زیادہ درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ سکروٹنی کمیٹی نے سات طویل اجلاسوں میں انتہائی شفافیت کے ساتھ ساڑھے چھ ہزار درخواستوں میں سے پانچ سو مستحق افراد کا انتخاب کیا اور فروری کے آخری ہفتے میں حتمی فہرست محکمہ ثقافت کے حوالے کردی گئی۔ صوبائی حکومت نے فروری سے وظائف کے اجراء کا اعلان کیا تھا لیکن اپریل کے آخری ہفتے تک ان سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ متعلقہ محکمے کا کہنا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی فہرست مارچ کے اوائل میں ہی منظوری اور فنڈز کے اجراء کے لئے حکومت کو بھیجی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ فن کاروں کے وظائف کی مد میں پندرہ کروڑ روپے محکمہ ثقافت کو مل چکے ہیں تقریب کی تیاری بھی کرلی گئی ہے لیکن مہمان خصوصی نے ابھی تک وقت نہیں نکالا۔ تاکہ اپنے دست شفقت سے مستحق قلم کاروں اور فن کاروں کو وظائف کے چیک دے سکیں۔عوامی بہبود کے ان نیک کاموں کا حکومت کو اپنی روانگی کے وقت ہی کیوں خیال آیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صوبائی حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری چھ مہینوں کے اندر عام لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے اہم فیصلے کئے ہیں۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد سے ہزاروں غریب خاندانوں کا بھلا ہوگا اور لامحالہ اس کے سیاسی فوائد تحریک انصاف کو بھی ملیں گے۔ جن میں ریپڈ بس ٹرانزٹ کا منصوبہ، آئمہ کرام ، اقلیتی کے مذہبی پیشواوں ، ادیبوں، شاعروں اور فن سے وابستہ افراد کے لئے وظائف کی فراہمی کے منصوبے شامل ہیں۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ایسے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے جن سے حکمرانوں اور متمول طبقے کو نہیں۔ سو فیصد غریب، متوسط طبقے اور عام لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ لیکن صرف اعلانات ہی کافی نہیں۔ ان پر عمل درآمد بھی ہونا چاہئے ۔تاکہ ان فلاحی منصوبوں کے ثمرات لوگوں تک پہنچ سکیں۔اعلانات اس سے پہلے بہت ہوچکے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے، طبقاتی نظام تعلیم کی بیخ کنی، دہشت گردی کا جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، عوام کو صاف پانی، بجلی، گیس اور دیگر بنیادی سہولیات گھر کی دہلیز پر پہنچانے، روزگار فراہم کرنے ، غربت کی شرح کم اور معیار زندگی بہتر بنانے کے وعدے اور اعلانات ہر حکومت کرتی رہی ہے۔ اب یہ ساری باتیں مذاق لگتی ہیں۔حکمرانوں نے اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لئے بھی بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں بنائی ہیں۔جبکہ غریبوں کے بچے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر رزق تلاش کر رہے ہیں۔حکمران طبقات کی دورخی اب آشکارہ ہوچکی ہے وہ اسمبلیوں اور عوامی جلسوں میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں اور باہر نکل کر بغل گیر ہوجاتے ہیں۔اقتدار کی باریاں لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ اس سیاسی کلچر کے خلاف تحریک انصاف نے آواز بلند کی تو عوام کو پی ٹی آئی کی صورت میں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آنے لگی تھی۔ لیکن خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی پانچ سالہ حکومت کی کارکردگی اتنی شاندار نہیں رہی۔ جتنی توقع کی جارہی تھی۔ جرات مندانہ فیصلے کرنے کے باوجودبار بار بیک فٹ پر جانے کی وجہ سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ عمران خان سے بہتر یہ بات کون سمجھ سکتا ہے کہ بیک فٹ پر جاکر دفاعی شارٹ کھیلنے والے کبھی وکٹری سٹینڈ پر نہیں پہنچتے۔ جیت کے لئے فرنٹ فٹ پر آکر جارحانہ انداز میں کھیلنا پڑتا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کو چاہئے کہ صرف خوشگوار اعلانات پر ہی اکتفا نہ کرے۔ اگر عوام کی ہمدردی حاصل کرنی ہے تو عوامی فلاح و بہبود کے لئے جو اعلانات انہوں نے کئے انہیں فوری طور پر عملی جامہ پہنائے۔یقین جانئے۔ اسی میں تحریک انصاف کی سیاسی بقاء مضمر ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔