موبائل کارڈ پرڈیم ٹیکس

………محمد شریف شکیب…….
موبائل صارفین کے لئے ایک پریشان کن خبر یہ ہے کہ ڈیم بنانے کے لئے موبائل فون کے پری پیڈ کارڈ پر ودہولڈنگ ٹیکس لگانے کی صدائے باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ ڈیم بنانے کی تحریک کے روح رواں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ آبی ذخائر کے لئے عوام پر ٹیکس لگانا مناسب نہیں۔اگر قوم اجازت دے تو موبائل کارڈ پر اس حوالے سے ٹیکس بحال کرنے سے ماہانہ تین ارب روپے ملیں گے۔ اس حساب سے سالانہ 36ارب روپے بنتے ہیں۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ پری پیڈ کارڈ پر ڈیم ٹیکس کس شرح سے لگایا جائے گا۔سپریم کورٹ کی طرف سے جولائی میں موبائل کارڈز پر ٹیکس کاٹنے کی ممانعت سے پہلے 100روپے کا کارڈ لوڈ کرنے پر 76روپے کا بیلنس نظر آتا تھا۔ تاہم حقیقت میں 39روپے ٹیکسوں کی مد میں کٹتے تھے۔ جن میں گورنمنٹ چارجز، سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس اور متفرق چارجز شامل ہوتے تھے۔ پانچ مہینوں سے موبائل کمپنیاں سو روپے کا کارڈ لوڈ کرنے پر پورے پیسے موبائل پر بھیجتی ہیں۔ کسی کمپنی نے نقصان ہونے کی وجہ سے اپنی سروس بند نہیں کی اور نہ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر احتجاج کیا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خفیہ چارجز کے ذریعے یہ کمپنیاں اپنا منافع نکال رہی ہیں۔پاکستان میں موبائل فون کا عام استعمال 2001سے شروع ہوا تھا۔ اس وقت کال کرنے اور وصول کرنے پر بھی ٹیکس کاٹا جاتا تھا۔ پھر یہ سہولت دی گئی کہ کال وصول کرنے پر کوئی کٹوتی نہیں ہوگی۔ تاہم مختلف اقسام کی غیر ضروری سہولیات زبردستی موبائل میں ڈال کر یہ کمپنیاں سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے لگیں۔گذشتہ اٹھارہ سالوں کا حساب لگایا جائے تو کھربوں روپے عوام سے وصول کئے گئے ہیں۔اگر یہ ٹیکسز ناجائز تھے تو موبائل کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ عوام سے ناجائز طریقے سے وصول کئے گئے ٹیکسز کی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں ۔ اگر آدھی رقم بھی ان سے واپس لی گئی تو بھاشا جیسے دو تین ڈیم بن سکتے ہیں اور حکومت کو عوام پرڈیموں کے نام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔کچھ عرصہ قبل یہ صدائے بازگشت بھی سنائی دینے لگی تھی کہ بینکوں کے جو تین سو ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔ قرضہ لینے اور معاف کرنے والوں سے وہ رقم وصول کرکے ڈیم بنائے جائیں گے۔ حکومت گذشتہ بیس تیس سالوں میں معاف کئے گئے قرضے ہی وصول کرے تو کئی ڈیم بن سکتے ہیں۔اقتدارمیں آنے سے پہلے قوم سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ اربوں ڈالر کی جو رقم ملک سے باہر منتقل کی گئی ہے اسے واپس لاکر ڈیم بنائے جائیں گے۔ مگر وہ وعدہ بھی حکومت بھول گئی۔ ہم نے قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ سارے اعلانات اور وعدے ارباب اختیار کو یاد دلوائے ہیں تاکہ موبائل کارڈ پر ودہولڈنگ ٹیکس بحال کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پس کر غریب کی حالت بہت پتلی ہوگئی ہے۔ روز کسی نہ کسی چیز کی قیمت بڑھانے کی باتیں ہورہی ہیں۔بجلی ، گیس، پٹرول، ڈیزل اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ اب تو معمول بن گیا ہے۔ اوگرا نام کا جو ادارہ بنایا گیا ہے۔ اس کی عادت اب بچوں والی ہوگئی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی ایک درخواست کا فیصلہ آنے کے دوسرے روز وہ پھر قیمتوں میں اضافے کی نئی درخواست دائر کرتی ہے۔ پہلے زمانے میں صرف بجٹ میں قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں۔ پھر رفتہ رفتہ ضمنی بجٹ کا دور چلنے لگا۔ اور عبوری اضافے کے نام پر ہر چار چھ مہینے بعد قیمتیں بڑھائی جانے لگیں۔ اب تو بات سالوں اور مہینوں سے
ہفتوں اور دنوں تک آگئی ہے۔شاید ہمارے حکمران عوام کو بہت متمول سمجھتے ہیں۔ہر آنے والی حکومت اس کا کچومر نکالنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھتی ہے۔ ایک ہی ریلیف موبائل کارڈ پر ٹیکسوں کے خاتمے کی صورت میں عوام کو مل گیا تھا۔ اسے بھی ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ پانی کی قلت ملک کا سنگین مسئلہ ہے۔ اسے حل کرنے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک مسئلے کو حل کرنے کے لئے کئی نئے مسائل پیدا کرنا بلاجواز ہے۔ ڈیم بنانا بلاشبہ قومی مفاد میں ہے۔ اور قومی مفاد کی خاطر ہم سب کچھ قربان کرسکتے ہیں۔ لیکن جب ڈیم بنانے کے ایک درجن راستے موجود ہیں تو عوام سے ہی زور نکالنے کا واحد راستہ کیوں اختیار کیا جائے؟؟
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔