نو مورکاپاکستانی جواب

………محمد شریف شکیب……..
وزیراعظم عمران خان نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان آئندہ کرائے کی بندوق نہیں بنے گا۔ ہم وہی کریں گے جو ہمارے قومی مفاد میں ہوگا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے واضح کیا کہ انہیں امریکہ سے کوئی اختلاف نہیں، امریکی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف ہے۔ ہم باہمی احترام کی بنیاد پر برابری کے تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرنے والے اب افغانستان میں قیام امن کے لئے ہم سے مدد اور تعاون کے خواہستگار ہیں۔وزیراعظم نے اپنے اس انٹرویو میں قومی امنگوں کی درست ترجمانی کی ہے۔عالمی برادری کا اہم رکن ہونے کے ناطے ہم امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں ۔انہی جذبات کا اظہار سابق صدر جنرل ایوب خان نے بھی اپنی خود نوشت سوانح عمرای میں بھی کیا تھا۔ ایوب خان نے کہا تھا کہ’’ تمام ترقی پذیر ممالک کی خواہش ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ برابری اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر تعلقات استوار ہوں۔ پاکستان کو دوستوں کی ضرورت ہے آقاوں کی نہیں‘‘۔ اپنی سوانح عمری کا نام بھی انہوں نے Friends not Masters رکھا ۔ایوب خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی امریکہ سے برابری کی بنیاد پر تعلق کی پالیسی اپنائی ۔جب امریکہ نے مسلسل سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو انہوں نے امریکہ کو سفید ہاتھی کہا۔ دونوں رہنماوں کا انجام دیکھ کر ان کے بعد آنے والے حکمران کچھ زیادہ ہی محتاط ہوگئے۔نائن الیون کا ڈرامہ رچانے کے بعد صدر بش نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف کاروائی شروع کی تو اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا۔اور امریکی صدر نے اعلان کیا کہ اس جنگ میں جو امریکہ کا ساتھ نہیں دے گا۔ اسے دہشت گردوں کا ساتھی مانا جائے گا۔ امریکہ کی شر سے بچنے کے لئے ہمارے حکمرانوں نے بھی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں غیر مشروط طور پر شریک ہونے کا اعلان کیا۔ گذشتہ سترہ سالوں میں پرائی جنگ کا حصہ دار بننے پر ہمیں جو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکہ سمیت اس نام نہاد جنگ کے کسی فریق کو اتنا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے باوجود انکل سام ہم سے خوش نہیں ۔ اور مسلسل ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ جب ساٹھ ہزار جانوں کی قربانی اور ایک سو بیس ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانے کے باوجود امریکہ ہم سے راضی نہیں اور روز نئی پابندیوں میں پاکستان کو جکڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ توایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم دوسروں کے مفادات کی چوکیداری چھوڑ کر اپنے قومی مفادات کا سوچیں۔ امریکی امداد بند ہونے سے ہم نہ پہلے مرے تھے اور نہ آئندہ بھوک سے مریں گے۔البتہ دوسروں کا دست نگر رہنے کی وجہ سے ہمارا وجود خطے میں پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی جغرافیائی اہمیت سے نوازا ہے۔ ہماری مدد اور تعاون کے بغیر جنوبی ایشیاء میں امریکہ، چین اور روس کچھ نہیں کرسکتے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے کمیشن کے لالچ میں پوری قوم کو قرضوں کا عادی بنادیا ہے۔ اگر ہم اپنے وسائل سے پورا استفادہ کریں تو ہمیں کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے چار موسم عطا کئے ہیں۔ زرخیز زمینیں اور آبی وسائل ہمارے پاس ہیں۔ فلک بوس، برف پوش پہاڑ ہیں جو سونے، تانبے، جنسم،شیلائٹ، زمرد، عقیق، نیلم، یاقوت ، سنگ مرمراور دیگر قیمتی معدنیات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس گھنے جنگل ہیں۔ دل موہ لینے والے قدرتی مناظر ہیں ۔سمندراور بندرگاہیں ہیں۔ اور بائیس کروڑ کی آبادی والی جفاکش قوم ہے۔ لیکن کسی حکومت نے ان قدرتی اور انسانی وسائل کو ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ وزیراعظم نے امریکہ کو دوٹوک جواب تو دیدیا ہے۔ اب اس کے ممکنہ نتائج سے نبردآزما ہونے کے لئے بھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ شاید یہ قدرت کی طرف سے ہماری آزمائش ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا پر ثابت کریں کہ ہم آزاد، خود مختار اور خود دار قوم ہیں۔ ہمیں کسی ایسے سہارے کی ضرورت نہیں۔ جس بنیاد پر کوئی ہمارے کندوں پر بندوق رکھ کر اپنے دشمنوں پر گولی چلائے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔