آبادی کنٹرول کرنے میں غیر سنجیدگی

……….محمد شریف شکیب…….
پاکستان کے اہم ترین مسائل کو اگر انگلیوں میں گنا جائے تو کرپشن سے زیادہ سنگین مسئلہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی سالانہ ڈھائی فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔جبکہ آبادی کے تناسب سے وسائل بڑھنے کے بجائے گھٹتے جارہے ہیں۔قدرتی آفات، زمین کے کٹاو، موسمی تغیرات، سیم و تھور اور عمارات و شاہرات کی تعمیر کی وجہ سے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں زرعی اجناس بیرون ملک سے درآمد کرنی پڑ رہی ہیں۔ آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کی ہماری نیم دلانہ کوششیں اب تک بار آور ثابت نہیں ہوسکیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1971میں مشرقی پاکستان کی آبادی سات کروڑ اور مغربی پاکستان کی پانچ کروڑ تھی۔گذشتہ پچاس سالوں میں ہماری آبادی میں 400فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہم پانچ کروڑ سے اکیس کروڑ تک پہنچ گئے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی آبادی سات کروڑ سے سولہ کروڑ ہوگئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے وزارتیں قائم ہیں ہر صوبے، ڈویژن ، ضلع اور تحصیل کی سطح پر بھی بہبود آبادی کے دفاتر قائم کئے گئے ہیں لیکن ان کے لئے کوئی ٹھوس گائیڈ لائن وضع نہیں کی گئی۔ خیبر پختونخوا میں 2004میں آبادی میں اضافے کی رفتار کو کم کرنے کے لئے میل اور فیمل موبلائزر بھرتی کئے گئے تھے۔ جن کے لئے گریجویشن کی شرط رکھی گئی تھی۔ چترال جیسے دور افتادہ علاقے میں بھی 544میل موبلائزرز بھرتی کئے گئے۔ جو گھر گھر جاکر شادی شدہ جوڑوں کی رجسٹریشن کرتے تھے اور علاقے کے عمائدین کے ساتھ مشاورت کرکے بہبود آبادی سے متعلق آگاہی فراہم کرتے تھے۔ ان میل موبلائزر کوابتدائی طور پر تین سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا اور انہیں تین ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ دیا جاتا تھا۔ تین سال بعد ان کی افادیت کے پیش نظر موبلائزرز کی ملازمت میں مزید سات سال کی توسیع کی گئی اور ان کا اعزازیہ تین ہزار سے بڑھا کر سات ہزار کردیاگیا۔جون2014میں ان میل موبلائزرز کو اچانک برطرف کردیا گیا۔ دس سال تک ادارے کے لئے کام کرنے والے یہ گریجویٹ نوجوان کسی دوسری جگہ ملازمت کے بھی قابل نہیں رہے۔ انہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی۔ جولائی 2014میں جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے بنچ نے میل موبلائزرز کو ملازمت پر بحال کرنے اور تنخواہوں کی فوری ادائیگی کا فیصلہ دیدیا۔ مگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ چترال سے تعلق رکھنے والے ان میل موبلائزرز کا کہنا ہے کہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بہبود آبادی کے میل موبلائزرز کو مستقل بھی کردیا گیا ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا لیکن چترال سمیت چند پسماندہ اضلاع میں اس فلاحی منصوبے کو لپیٹ دیا گیا حالانکہ وہاں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت آبادی کو کنٹرول کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ سات قبائلی اضلاع اور چھ نیم قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد صوبے کی آبادی ساڑھے چار کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ صوبے میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ منصوبہ بندی اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کو آبادی کی غفریت پر قابو پانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ معاشی طور پر پسماندہ اس صوبے میں آبادی اور وسائل کے درمیان تناسب کو متوازن رکھا جاسکے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ بہبود آبادی کے محکمے کو مزید فعال بنایا جائے۔اور اس کے
لئے اضافی وسائل فراہم کئے جائیں۔حکومت آئندہ پانچ اور دس سال کے لئے آبادی کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں اہداف کا تعین کرے اور ان اہداف کے حصول کے لئے جامع حکمت عملی وضع کرے۔ سٹاف کوعصری تقاضوں کے مطابق تربیت دی جائے۔ساتھ ہی علمائے کرام، دانشوروں، میڈیا اور دیگر اداروں کو بھی مہم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ اہداف تک پہنچا جاسکے۔ توقع ہے کہ محمود خان کی قیادت میں خیبر پختونخوا حکومت اس سنگین قومی مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دے گی۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔