دادبیداد ….کھیل اورچترال 

خبرآگئی ہے کہ حکومت بچوں کے تحفظ کے لئے چائلڈ پروٹکشن بل لا رہی ہے نو جوانوں کو صحت مند تفریح کے موا قع دینے کے لئے کھیلوں کے مواقع فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے دونوں خبریں خوش آئندہیں چترال ، بٹگرام ،کوہستان ، دیر اور تورغر جیسے اضلاع میں یا اورکزی ، مہمند وغیرہ کے نئے اضلاع میں بچوں کا تحفظ تو ہو گا قانون پر عملدرآمد بھی ہو گا مگر نو جوانوں کو صحت مند تفریح کے مو اقع کیسے فراہم ہونگے ؟یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے پشاور ،بنو ں، ڈی آئی خان اورایبٹ اباد میں کھیل کے میدانوں کو ختم ہو تے دیکھا ہے یا سکڑ تے سکڑتے ختم ہو نے کے قریب پہنچ چکے ہیں ملا کنڈ ڈویژن کا ضلع چترال اس کی ایک مثال ہے 1970ء میں ہم سکول کے طا لب علم تھے تو چترال کے طول و عرض میں 40پو لو گراونڈ اور 85فٹبال گراونڈ تھے 2018ء میں 15پو لو گراونڈ اور 28فٹ بال گراونڈ رہ گئے ہیں چترال ، دیر اورسوات میں ریا ستی دور کے قوانین سخت تھے افیسروں کی لیا قت ، قا بلیت اور دیا نت داری مسلّمہ تھی اچھے قوانین اور قا بل حکام کے ہوتے ہوئے پبلک مقا ما ت پر کوئی تجا وز نہیں کر سکتا تھا ریا ستوں کے ضلع بننے کے بعد حکام کی اہلیت کا معیا ر گر گیا ، اور پبلک مقا مات بر باد ہوئے 3000سال پرانے قلعے کے کھنڈرات کو مسمار کرکے سکول کی تعمیر کا حکم دیا گیا ، 200سال پرانے پو لو گراونڈ کو سڑک بنا نے کا حکم صادر ہوا 100سال پرانے ہاکی گراونڈ کے اندر کا لج کی تعمیر کا نادر شاہی فر مان آیا ، 80سال پرانے والی بال اور باسکٹ بال نیٹ کی جگہ محکمہ تعلیم کے دفترات تعمیر کرنے کا حکم ملا دفتر ، سڑک ،سکول یا کا لج کی تعمیر کو عوامی مفاد قرار دے کر فٹ بال ، پو لو ، ہا کی ، والی بال ، باسکٹ بال اور دیگر کھیلوں کو عوامی مفاد کے منا فی قرار دیا گیا قدیم قلعے کے کھنڈرات اور نوادرات کو اکھاڑ کر پھینک دینے کا حکم ہو ا گویا ترقی کا دور نہیں آیا چنگیز خان اور ہلا کو خان کی فو جو ں کا حملہ ہو ا 2018ء میں یہ حال ہے کہ چترال کے طول عرض میں بچے یا سڑکوں پرکھیل کر اپنے شوق کو پورا کرتے ہیں یا دریا کے کنا رے سیلابی ریت پر جا کر کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں چترال ٹاون کی 80ہزار آبادی میں 30ہزار نو جوانوں کے لئے کھیل کا کوئی میدان باقی نہیں رہا ، ہا ئی سکول نے اپنے گراونڈ کے گرد چاردیواری تعمیر کر کے در وازے لگادیے اوردروازوں پر تا لے لگا کر ’’نو گو ایریا ‘‘ بنا دیا گورنمنٹ کا لج کے گراونڈ پر چترال سکاوٹس کا پہرہ ہے وہ بھی نو جوانوں کے لئے نو گو ایریا بن چکا ہے ٹا ون کے تاریخی دہرے پو لو گراونڈ (Twin grounds)کے گرد چار دیواری تعمیر کر کے دو آہنی در وازے نصب کر دیئے گئے ہیں تیسرا دروازہ تعمیر ہونے والا ہے اس کی تکمیل کے بعد پو لو گراونڈ پر بھی تا لے لگ جائینگے یہ بھی وی آئی پی حضرات اور امیر طبقے کے لئے وقف ہو جا ئے گا 2019ء کے اختتام تک چترال ٹاون میں 30ہزار نو جوانوں کے لئے کھیل کا کوئی میدان دستیاب نہیں ہو گا دوسرے شہروں اور قصبوں کا بھی یہی حال ہے وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ سر کاری حکام کی کتابوں میں منصو بہ بندی یا پلا ننگ نا م کی کوئی چیز نہیں ہے انگریز وں نے 1860ء اور1880ء کے درمیانی عر صے میں پشاور اور راولپنڈی کے کنٹونمنٹ تعمیر کروالئے اُن کی سڑ کیں اتنی کشادہ بنوائیں کہ ڈیڑھ سو سال بعد بھی عمارتوں کو گرا کر ، دیواروں کو توڑ کر ، دروازوں کو اکھاڑ کر سڑک کے لئے جگہ دینے کی ضرورت نہیں پڑی ہمارے افیسروں کی پلا ننگ مر غی کی طرح سامنے پڑے ہوئے ’’دانے ‘‘ تک محدود ہے ہمارے ہاں 100سالوں کو چھوڑ ئیے 20سالوں کی منصو بہ بندی بھی نہیں ہے ہاکی گراونڈ میں کا لج تعمیر کرتے وقت افیسروں نے یہ نہیں سوچا کہ ہا کی گراونڈ کی ضرورت پیش آئے تو کیا ہو گا ؟ پو لو گراونڈ کو توڑ کر سڑک اور سکول بنانے والے حکام نے یہ نہیں سوچا کہ پو لو گراونڈ کی ضرورت پڑ گئی تو ایسا گراونڈ کہاں سے لائینگے ؟ ہماری سر کار غریبوں کے مکا نا ت کو تجا وزات قرار دیکر دھڑا دھڑ گرارہی ہے مگر یہ نہیں سوچتی کہ سر کار نے جو تجا وزات کئے اُن کا کیا بنے گا؟ 1980ء میں ایک تجربہ کار افیسر کا انٹر ویو شائع ہو ا غلا م جعفر اسلامیہ کا لجئیٹ اور اسلامیہ کا لج کا طا لب علم رہاتھا سر صاحبزادہ عبدالقیوم کے دور کو اُنہوں نے دیکھا تھا 1920سے 1960تک سٹینوگرافر سے لیکر تحصیلدار تک مختلف عہدوں پر کام کیا اُن کے 40سالہ تجربے کا نچوڑ یہ تھا کہ قیام پا کستان سے پہلے دفتروں میں افیسراور ماتحت عملہ ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا ’’یہ میری ہے ‘‘ کہہ کر ہر چیز کی حفا ظت کر تا تھا ہر چیز کو اپنا سمجھنا تعلیم اور تر بیت کا حصہ تھا اس کی ٹریننگ دی جا تی تھی 1950ء کے بعد جو افیسر آگئے انہوں نے ما تحت عملے کو سکھا یا کہ یہ حکومت کی چیزیں ہیں تمہارے گھر کی تو نہیں ہیں گولی مارو کل کسی اور کے ہاتھوں میں ہونگی انگریزی میں اس کوownershipکہتے ہیں 1950ء سے پہلے ہم ایک تھے 1950ء کے بعد ملک، سر کار اور قوم کو اپنی ذات سے الگ کیا گیا افیسراور نو کر کا مفاد ملک اور قوم کے مفاد پر غا لب ہوا سرکار کے مفاد کو پس پُشت ڈال دیا گیا 1950سے پہلے بد عنوانی کا نام کوئی نہیں جانتا تھا کام چوری کا تصّور بھی نہیں تھا ملک ، قوم اور سرکار کو اپنی ذات سے الگ کرنے کے بعد برائیوں نے ڈیرے ڈال دیے ان برائیوں نے کھیل کے میدانوں کو بھی کھا لیا 1965ء میں ہم سکول میں پڑ ھتے تھے تو ٹا ون میں نو جوانوں کے لئے خوبصورت گھاس والے وسیع میداں دستیاب تھے 2018ء میں نو جوانوں کو سڑک پر آکر ٹریفک سے بچتے بچاتے کھیلنا پڑ رہا ہے اگر اس کا نام تر قی ہے تو تنزل کیا ہو گا ؟

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔