زندہ ہے جمعیت ۔۔۔

ویسے یہ نعرہ اجکل سیاسی پارٹیاں جمعیت علماء اسلام ف گروپ ، س گروپ اور نظریاتی گروپ سب استعمال کرتے ہیں مگر بنیادی طور پہ یہ نعرہ اسلامی طلبہ کا تھا، اسلامی جمعیت طلبہ وہ طلباء تنظیم ہے  جس کی بنیاد آج سے اکہتر سال پہلے مولانا مودودی رحمہ اللہ کی موجودگی میں رکھی گئی تھی۔ ویسے 1945 سے جماعت اسلامی کے  بانی اراکین مشاورت میں مصروف تھے کہ مزہبی سوچ رکھنے والے طلباء کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کیا جائے ۔ اگست 1947 میں ایک اجتماع کا پروگرام نئی دہلی میں بنایا گیا تھا تاہم تقسیم ہند کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوا۔ پھر ماہ دسمبر میں  طلباء کا سہ روزہ اجتماع 21 سے 23 دسمبر تک لاہور میں منعقد کیا گیا۔ اسلام پسند طلباء کیلیے ایک تنظیم بنانے کی  مشاورت ہوئی مولانا مودودی نے ایک نام تجویز کیا ” انجمن نوجوانان پاکستان” اس نام سے طلباء نے اختلاف کیا پھر اتفاق سے مولانا نصراللہ خان  عزیز تشریف لائے انہوں نے ایک نام تجویز کیا۔ “اسلامی جمعیت طلباء پاکستان ” اور یوں 23 دسمبر 1947 کو اسلامی جمعیت طلباء پاکستان کی بنیاد رکھ لی گئی ۔
آج اسلامی جمعیت طلباء کے دوست اکہترواں  یوم تاسیس منارہے ہیں۔ اور آج جب میں   دیکھتا ہوں کہ دوران طالب علمی کالج اور یونیورسٹی میں طلباء کی اخلاقی تربیت ، غیر اسلامی و غیر اخلاقی سرگرمیوں کا تعلیمی اداروں میں  تدارک  کیلیے آج تک  اسلامی جمعیت طلباء سے بڑھ کر کوئی تنظیم نہیں بنائی گئی۔ باقی انسانوں کی تنظیم ہے تو غلطیوں کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ، جمعیت کی سرگرمیوں پہ اعتراضات بھی ہوے ہیں ہوتے رہینگے مگر بطور مجموعی اسلامی جمعیت طلباء کے مخالفین بھی جمعیت کی مثبت کاروائیوں کے معترف ہیں ۔  بائیں بازو کے معروف کالم نگار حسن نثار نے بھی باوجود جمعیت کی مخالفت کے یہ کہا تھا، کہ جمعیت کے لڑکوں کی موجودگی میں یونیورسٹی کے اندر مجھے اپنی بیٹی کی کوئی فکر نہیں ” اسی طرح کالجز اور یونیورسٹیوں کے اندر غیر اخلاقی سرگرمیاں روکنے ، نئے طلباء کے ساتھ مذاق یا فولنگ روکنا ، نئے طلباء کی قانونی اور اخلاقی مدد ،مفت  ٹیویشن سنٹرز کا قیام،  طلباء کے لیے لیکچرز ، درس قرآن اور درس حدیث کا اہتمام جیسی سرگرمیوں کی وجہ سے اسلامی جمعیت طلباء کا ایک بہت بڑا مقام ہے جس کے مخالفین بھی معترف ہیں۔
 علاؤہ برین  جمعیت نے اس ملک کو ایسے ہیرے تراش کر دئے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں جا کے اپنی مثال آپ ثابت ہوے ہیں۔ خصوصا میدان سیاست کے جو لوگ طالب علمی کے دور میں جمعیت سے منسلک رہے ہیں خواہ وہ اجکل دوسری سیاسی پارٹیوں سے منسلک بھی ہو وہ حب الوطنی دیانت داری اور صداقت میں سب سے آگے ہی رہتے ہیں ۔
اسلامی جمعیت طلباء نے اس ملک کو جنرل حمید گل جیسے سراغرساں جنرل ، کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر جیسے بہادر فوجی آفیسر ، سید علی گیلانی جیسے حریت رہنما،
اور جرمنی میں توہین رسالت کے خلاف احتجاج کرتے ہوے شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والے عامر چیمہ شہید جیسے مجاہد ، ڈاکٹر اسرار احمد جیسے سکالر، پروفیسر خورشید احمد  جیسے ماہر معاشیات ، مذہبی سکالر اور سیاست دان جو اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ ” شاہ فیصل ایوارڈ” حاصل کرنے والے تین عجمیوں میں سے  ایک ہیں۔ خرم مراد جیسے انجینیر اوریا مقبول جان جیسے صحافی سمیت بے شمار ایسے تخفے اس ملک کو دئے ہیں جن پہ بلاشبہ ناز ہی کیا جاسکتا ہے ۔
ان سب کے باجود اسلامی جمعیت طلبہ  بالعموم پورے پاکستان بالخصوص چترال میں کسی حد تک غیر فعال ہوچکی ہے۔ جس  کی زمہ دار بھی خود جماعت اسلامی ہی ہے ۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے بڑوں نے کبھی شباب ملی کے نام سے اور کبھی جے آئی یوتھ کے نام سے تنظیمن بنا کر نادانستہ طور پر جمعیت کو غیر فعال کرنے کی کوشش کی ۔ جو کہ جماعت اسلامی کی بہت بڑی غلطی ہے۔
جمعیت کی بنیاد سید مودودی رحمہ اللہ نے رکھی تھی جو آج بھی زندہ ہے انشاء اللہ زندہ رہنے کیلیے بنی ہے۔ باقی چیزیں وقتی طور پر پانی کے بلبلے ہیں۔ اور جمعیت کے پیچھے بہت بڑی تاریخ ہے۔ اسلیے  جماعت اسلامی کو بھی چاہیے وہ اگر نوجوانوں میں مقبولیت چاہتی ہے تو اسلامی جمعیت طلبہ کو فعال کرے۔
آخر میں جمعیت کے تمام دوستوں، سابقین اور ان سب کو جو کسی نہ طرح رکن، کارکن ، رفیق یا حامی کی صورت میں جمعیت سے وابستہ رہے ہو میری طرف سے یوم تاسیس (سالگرہ ) مبارک ۔۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔