ذوالفقارعلی بھٹو کی زندگی کا مختصر تعارف

سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کا شمار دنیا کے عظیم راہنماؤں میں ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی ذات سے کسی کو ہزار اختلاف ہوں، تو ہوں پر یہ سچائی اپنی جگہ ہے کہ وہ ایک تاریخ ساز اور عہد آفریں شخصیت تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہیں۔ اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے دنیا سے اپنی خطابت و ذہانت کا لوہا منوایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام خامیوں اور بشری کمزوریوں کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت آج بھی ان کا احترام کرتی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں اْبھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔
ایک خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ذوالفقار علی بھٹو نے1950 میں کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدکراچی میں وکالت کا آغاز کیا ،اور پھر 1953 میں ایس ایم لا ء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز 1958ء میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے۔
جنوری 1960 میں اس کے ساتھ ساتھ آپ کو مزید محکمے مثلا اقلیتی امور ،ایندھن بجلی و قدرتی وسائل اور امور کشمیر کا قلم دان بھی سونپ دیا گیا۔1962 کے آخر میں دسمبر میں پاک بھارت مذاکرات کے مندوب مقرر ہوئے۔1963 میں وہ ملک کے وزیر خارجہ بنے۔قائد عوام کو ہلال پاکستان کا اعزاز 27 جون 1964 کو دیا گیا۔ ستمبر 1965ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔
جنوری 1966ء میں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اْنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔
بھٹو نے دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اْنہی کا خاصا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصول تھے۔اسلام ہمارا دین ہے۔جمہوریت ہماری سیاست ہے۔سوشلزم ہماری معیشت ہے۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی
1970ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ء میں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ء میں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔
ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اْنہوں نے 1973ء میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اْنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اْنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے۔
پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اْنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔
ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا، بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ء کو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔
دانشوروں سے لیکر عام آدمی کا کہنا ہے کہ بھٹو ایک بہت بڑا لیڈر تھا ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بھٹو صاحب پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے چاہتے تھے جیسے آج اسلامی دنیا میں ترکی کی مثال دی جاتی ہے، میر ا ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ بھٹو کے ساتھ انصاف ہونا چایئے اور اْس کے لیے ضروری ہماری نئی نسل کو غلط تاریخ نہ پڑھائی جائے تاکہ وہ درست فیصلہ کرسکیں۔
پاکستانی سیاست کے اْفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں4اپریل 1979ء کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اْن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔