ادویات کی قیمتوں میں اضافہ

………..محمد شریف شکیب…..
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 24ہزار ادویات کی قیمتوں میں 9سے 15فیصد تک اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ جن میں جان بچانے والی ادویات بھی شامل ہیں۔ ادویہ ساز کمپنیوں نے ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ادویات کا خام مال اور پیکنگ کا سامان مہنگا ہونے کی بنیاد پر ادویات کی قیمتوں میں چالیس فیصد تک اضافے کے لئے حکومت سے درخواست کی تھی۔ تاہم ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے پندرہ فیصد تک قیمتیں بڑھانے کی اجازت دیدی۔ پیداواری لاگت بڑھنے اور قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ٹی بی، اعصابی امراض، کینسر اور جلد کی بیماریوں سے بچاو کی ادویات کی پیداوار روک دی تھی جس کی وجہ سے مارکیٹ سے یہ ادویات غائب ہوگئی تھیں۔ادویات کی قیمتیں پہلے ہی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر تھیں۔ اب قیمتوں میں مزید پندرہ فیصد اضافے سے بدقسمت عام آدمی کے لئے علاج کرانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔دوائیاں مہنگی ہونے پر کسی دل جلے نے سماجی رابطوں کی ویپ سائٹس پر اپنا غصہ یہ کہہ کر اتارنے کی کوشش کی ہے کہ ’’ پہلے لوگ ملاوٹی اور نقلی ادویات کے استعمال سے مرتے تھے۔ اب دوائی خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے مریں گے‘‘اس ملک میں غریب ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔ ہر مصیبت غریب پر ہی نازل ہوتی ہے۔ تیل، گیس، بجلی کی قیمتیں بڑھ جائیں تو اس کا سب سے پہلے اثر غریب پر ہی پڑتا ہے۔ تاجر اور صنعت کار تو قیمت بڑھاکر اپنا نقصان پورا کرتا ہے۔ ملازمت پیشہ آدمی اور دیہاڑی دار مزدور کیاکرے۔ اس کی تنخواہ اور اجرت تو ڈالر مہنگا ہونے، بجلی، گیس، تیل اور ادویات کی قیمت بڑھنے کے تناسب سے نہیں بڑھتی۔ دو سال پہلے ایک مزدور کی دن بھر کی اجرت تین سوروپے تھی۔ بس کا کرایہ دس روپے، چنے کی دال ستر روپے کلو، چاول چالیس روپے کلو، گھی ایک سو دس روپے کلو اور چینی باون روپے کلو دستیاب تھی۔ آج اس کی دیہاڑی وہی تین سو روپے ہے جبکہ بس کا کرایہ بیس سے تیس روپے، چنے کی دال ایک سو بیس روپے، چاول ساٹھ روپے، گھی ڈیڑھ سو روپے کلو اور چینی پنسٹھ روپے کلو ملنے لگی ہے۔ مکان کا کرایہ بھی سات ہزار سے بڑھ کر دس بارہ ہزار ہوگیا ہے۔ سب نے مہنگائی کا بہانہ بناکر اپنے اپنے ریٹ پچاس سے سو فیصد تک بڑھا دیئے ہیں وہ غریب دیہاڑی دار اپنے مزدوری کا ریٹ نہیں بڑھا سکتا۔ البتہ یہ کرسکتا ہے کہ اگر گھر میں روزانہ دو وقت کا کھانا پکتا تھا اب چوبیس گھنٹے میں ایک ہی وقت کھانا پکے گا۔ بچوں کو سستے پرائیویٹ سکول سے اٹھاکر سرکاری سکول میں داخل کرنا پڑے گا۔ دن بھر کی مزدوری سے گھر کا چولہاگرم رکھنادشوار ہوگیا تو رات کو بھی چوکیداری کرکے کچھ پیسے کمانے ہوں گے۔ تب جاکر جسم اور جان کا رشتہ برقرار رہ پائے گا۔ موجودہ حکمران جماعت کا انتخابی نعرہ تھا کہ وہ قومی دولت عوام پر خرچ کرے گی۔ مہنگائی کی شرح کو کنٹرول کرے گی۔لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے گی۔ مفت تعلیم اور مفت علاج کا نظام لائے گی۔ کرپشن کا خاتمہ کرے گی ، رشوت اور سفارش کے کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ تبدیلی کے ان دلکش نعروں سے متاثر ہوکر عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن گذشتہ چار پانچ مہینوں کے اندر مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اس کی وجہ سے حکومت کے حامی بھی اب اس پر نکتہ چینی کرنے پر مجبور ہیں۔ غریب ، متوسط اور ملازمت پیشہ لوگوں کے لئے جینا مشکل ہوگیا تھا اب سکون سے مرنا بھی ان کے لئے دوبھر ہوگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے وژن کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا جارہا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو
بڑھانے، ہر قسم کے کاروبار کو قانون کے دائرے میں لانے، کرپٹ عناصر کا محاسبہ کرنے سمیت ان کے بہت سے اقدامات کو قوم قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لیکن شاید انہیں اور ان کی ٹیم کو صورتحال کی سنگینی کا درست اندازہ نہیں تھا۔ جب ملک کا انتظام اچانک ہاتھ لگ گیا۔ تو حالات دیکھ کر ان کے ہاتھ پاوں پھول گئے اور صورتحال پر قابو پانے کے لئے انہوں نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو اب تک ان کے پیش رواختیار کرتے رہے ہیں کہ عوام پسینہ، تیل اور خون نچوڑ کر خزانہ بھر دو اور پھر سکون سے حکمرانی کرو۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔