سانحہ ساہیوال اور چند سوال

………..محمد شریف شکیب…………
ساہیوال کے خونین واقعے پر پورا ملک سوگوار ہوگیا۔ حساس اداروں کے اہلکاروں کی اندھادھند فائرنگ سے دو مرد، ایک خاتون اور ایک بچی جاں بحق ہوگئی، بیٹے کی موت کی خبر کا صدمہ ممتا کی ماری ماں برداشت نہ کرسکی اوراپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سربراہ خانہ خلیل کو بارہ، ڈرائیور ذیشان کو دس، خاتون نبیلہ کو چار اور بچی اریبہ کو چھ گولیاں لگی تھیں۔حساس ادارے کی طرف سے تھانے میں درج ابتدائی ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ داعش سے تعلق رکھنے والے خطرناک دہشت گرد موٹر کار اور موٹر سائیکلوں پرجارہے تھے۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر حساس ادارے کی ٹیم نے ساہیوال ٹول پلازے کے قریب ناکہ بندی کی۔ گاڑی روکنے کا اشارہ کرنے پر دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کردی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جوابی کاروائی کی۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گرد سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے بیٹے علی گیلانی کے اغواء سمیت متعدد واقعات میں ملوث تھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہد جبار اور عبدالرحمان سمیت تین دہشت گرد اپنے چار ساتھیوں کو ہلاک کرنے کے بعد فرار ہوگئے۔ گاڑی سے خود کش جیکٹس، دستی بم اور اسلحہ بھی برآمد کیاگیا۔جب میڈیا نے جعلی مقابلے کا پول کھول دیا تو گورنر پنجاب کا بیان آیا کہ ایسے واقعات دنیا میں ہر جگہ ہوتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر نے گل افشانی کی کہ حساس اداروں نے مصدقہ معلومات کی بنیاد پر آپریشن کیا ہے۔دوسری جانب پنجاب حکومت نے متاثرہ خاندان کے لئے دو کروڑ روپے معاوضے کا اعلان کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ دہشت گرد تھے تو ان کے خاندان کے لئے دو کروڑ کے معاوضے کا اعلان کیوں کیاگیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جب واقعے کی انکوائری کی تو پتہ چلا کہ خلیل کا خاندان اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے لاہور سے بوریوالہ جارہا تھا۔ جب قانون نافذ کرنے والوں نے ان کی گاڑی پر گولیوں کی بارش کردی تو وہ منتیں کرتے رہے مگر ان کی ایک نہ سنی گئی۔ گاڑی سے مقتولین کی زخموں سے چور لاشوں کے سواکچھ بھی بر آمد نہیں ہوا۔نہ ہی کوئی موٹر سائیکل ان کے ساتھ جارہی تھی ۔اور نہ گاڑی سے فائرنگ کا کوئی ثبوت ملا۔ ایک سینئر صحافی نے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سے بے حس لوگ مل کر ایک حساس ادارہ بناتے ہیں۔جب انہوں نے واشگاف الفاظ میں ایک سے زیادہ مرتبہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے تو ساہیوال میں داعش کے کارندے کہاں سے آگئے۔ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے سانحہ ساہیوال پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔خون میں لت پت بچوں کی لاشیں دیکھ کرپورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وزیراعظم نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ وہ سانحے پر دکھ کی کیفیت میں ہیں۔ پنجاب پولیس کی تطہیر اب ناگزیر ہوچکی ہے۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ذمہ داروں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ پر حساس ادارے کے سات اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔ لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ سوال مچل رہا ہے کہ کیا ناکے پر موجود قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے پاس شک کی بنیاد پر کسی کو اتنی بے دردی سے قتل کرنے کا اختیار ہے؟ فائر کھولنے کی اجازت کس نے دی تھی۔ ابتدائی اطلاعی رپورٹ میں مقتولین کو دہشت گرد کس بنیاد پر قرار دیا گیا۔ کار اور موٹر سائیکل سے سی ٹی ڈی پر فائرنگ اور گاڑی سے خود کش
جیکٹس، بم اور اسلحہ برآمد ہونے کا ڈرامہ کیوں اور کس کے کہنے پر رچایا گیا۔ قوم کے محافظوں کے ہاتھوں یہ قتل عام اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ جعلی پولیس مقابلوں میں ایسے ہزاروں بے گناہ مارے جاچکے ہیں۔ ایسے واقعات کا تدارک کیسے کیا جائے۔ سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے سے ننھی اریبہ، اس کی ماں ، باپ ،دادی اور ڈرائیور تو زندہ ہوکر واپس نہیں آسکتے ۔ تاہم آئندہ کسی کو قانون کے نفاذاور قومی مفاد کے نام پر کسی اریبہ اور نبیلہ کو گولیوں سے چھلنی کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔آگ و خون کاکھیل کھیلنے والے ہی نہیں۔ من حیث القوم ہم سب اریبہ، نبیلہ ،عاصمہ اور بے قضائے الہٰی موت کے گھاٹ اتاری جانے والی قوم کی بیٹیوں کے مجرم ہیں۔ ایسے واقعات پر ہم مجرمانہ خاموشی اختیار نہ کرتے تو آج کسی کو ننھی اریبہ کے سر اور سینے میں چھ گولیاں مارنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔